سمندر سے گھرے سری لنکا کو نمک کی قلت کا سامنا کیوں ہے؟

چاروں جانب سے سمندر سے گھرے کسی ملک کو ویسے تو نمک کی پیداوار میں خود کفیل ہونا چاہیے لیکن سری لنکا کو 1300 کلومیٹر سے زائد کی ساحلی پٹی کے باوجود نمک درآمد کرنا پڑرہا ہے۔

سری لنکن میڈیا کے مطابق ہمبنٹوٹا، پٹّلام اور پرنتھن ملک میں نمک بنانے کے بڑے مراکز ہیں جہاں سے سالانہ تقریباً 2 لاکھ میٹرک ٹن نمک پیدا ہوتا ہے جو کہ قومی طلب یعنی ایک لاکھ 80 ہزار میٹرک ٹن سے زیادہ ہے۔

اس کے باوجود سال 2025 میں سری لنکا دوسری بار نمک درآمد کر رہا ہے جو کہ کئی لوگوں کے لیے حیران کن ہے اور عوامی سطح پر تنقید کا باعث بھی بن رہا ہے۔

سری لنکا میں اس وقت نمک کی قلت بڑھ چکی ہے اور بعض علاقوں میں نمک کی فی کلو گرام قیمت 400 سری لنکن روپے تک پہنچ چکی ہے۔

سری لنکا میں نمک کی پیداوار بڑی حد تک سورج کی روشنی سے پانی کے بخارات بننے عمل پر انحصار کرتی ہے، جو کہ موسمی حالات کے حوالے سے نہایت حساس طریقہ ہے۔

نمک بنانے والے تالاب، جو کہ بڑے اور کم گہرے ہوتے ہیں، پانی کو خشک کرنے کے لیے مسلسل دھوپ پر انحصار کرتے ہیں۔ ان میں سمندر کا پانی چھوڑا جاتا ہے تاکہ یہ سورج کی حرارت سے بخارات بن کر اڑ جائے اور نمک کے کرسٹل باقی رہ جائیں۔ بعد ازاں ان کرسٹلز کو اکٹھا کیا جاتا ہے، دھویا اور سکھایا جاتا ہے اور ان میں سے کچھ کو آئیوڈائز کیا جاتا ہے۔

لیکن اگر نمک کے مکمل طور پر تیار ہونے سے پہلے بارش ہو جائے، جیسا کہ اس بار ہوا، تو ساری محنت ضائع ہو جاتی ہے۔

اس عمل کے لیے 45 دن تک دھوپ اور خشک موسم درکار ہوتا ہے تاکہ سمندری پانی مکمل طور پر بخارات بن جائے اور نمک باقی رہ جائے، لیکن اس سال یہ عمل شروع ہونے کے صرف 30 دن بعد ہی غیر متوقع بارش ہوگئی جس سے نمک کی پیداوار  یا تو تاخیر کا شکار ہوئی یا مکمل طور پر ختم ہوگئی۔

سری لنکا میں نمک کی یومیہ کھپت کا تخمینہ تقریباً 400 میٹرک ٹن ہے، نمک کی  پیداوار یا تیاری میں کسی بھی قسم کی تاخیر مارکیٹ میں نمک کی فوری قلت کا باعث بنتی ہے۔ 

رواں سال پیداوار میں کمی کے باعث حکومت نے فروری میں 30 ہزار میٹرک ٹن نمک درآمد کیا، اس کے باوجود مئی تک سپلائی محدود رہی اور اب حکومت نے مزید درآمدات کی اجازت دے دی ہے۔