ملک کی پارلیمانی اور حکومتی تاریخ سے واضح ہے کہ جب کسی مسئلے کا حل نہ ہو تو کمیٹی بنا کر اس کے حوالے کیا جاتا ہے‘ اسی طرح اعلیٰ تعلیم کے مسائل پر بھی وزیراعظم کے ایک معاون خصوصی کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی گئی تھی مگر اس کی رپورٹ منظرعام پر آنے کی بجائے غائب ہوگئی‘ مسئلے کی جڑ یا تہہ دراصل یہ ہے کہ ملک میں تعلیم کیلئے بجٹ نہیں اور جو کچھ دیا جا رہا ہے اس کا کوئی حساب و کتاب اور احتساب نہیں ‘سرکاری یونیورسٹیوں کے ملازمین کو گزشتہ کئی سال سے مقررہ تاریخ پر تنخواہ نہیں ملتی‘ مراعات یا الاﺅنسز کی توخیر بات ہی الگ ہے‘ کیونکہ مراعات تو کاٹ کاٹ کر نہ ہونے کے برابر کردی گئی ہیں جبکہ پنشن کی حالت یہ ہے کہ ہر پرانی یونیورسٹی بالخصوص خیرپختونخوا کی سب سے قدیم اور بڑی درسگاہ پنشن کی مد میں کروڑوں روپے کی مقروض ہے‘ مشاہدہ یہ کہ باقیماندہ سب کچھ کیلئے پیسوں کا بندوبست ہو سکتا ہے ‘چاہے سودی قرضہ ہی کیوں نہ لینا پڑے‘ مگر عرصہ ہوا کہ ایک جانب شرح خواندگی بڑھانے کی باتیں ہو رہی ہیں اور
دوسری طرف تعلیم کا بجٹ محض نام کی حد تک رکھا گیا ہے ‘سوال یہ ہے کہ کفایت شعاری کے دعوﺅں اور تعلیم کو اولین ترجیح قرار دیتے نعروں میں حقیقت کتنی ہے؟ پشاور کی سرکاری جامعات گزشتہ کئی سال سے اپنی صوبائی حکومت سے اعلیٰ تعلیم کیلئے سالانہ بجٹ میں کم از کم50ارب روپے گرانٹ مختص کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں مگر آج تک کوئی پذیرائی نہیں ملی ‘سال2025-26ءکے بجٹ سے قبل یونیورسٹی ملازمین نے یہ مطالبہ بارہا دھرایا مگر بے سود رہا کیونکہ بجٹ میں اعلیٰ تعلیم کیلئے جس حصے کا اعلان کیا گیاجامعات کے سٹیک ہولڈرز کے مطابق یہ تو گزشتہ کی طرح اس بار بھی محض صوبے
کے سرکاری کالجز کا بجٹ ہے جس میں قدرے اضافہ کیا گیا ہے جہاں یونیورسٹیوں کا تعلق ہے تو درحقیقت وہ سرکار کی کتاب اور بجٹ کی تقسیم میں سرے سے شامل ہی نہیں ہیں اب ایسے لازماً دو تین مہینے کے انتظار کے بعد جب تنخواہیں اور پنشن ملنا بند ہو جائے تو یونیورسٹیوں میں بھی تالہ بندی شروع ہو کر مسئلہ سڑکوں تک پہنچ جائےگا جامعات ملازمین اس بات کو لیکر سیخ پا نہیں کہ ان کی تنخواہوں میں محض10فیصد اضافہ کیا گیا ہے بلکہ وہ تو اس جمہوری آئینی اور قانونی حق کے تحت اس سوال کا جواب چاہتے ہیں کہ غیر مستحق اور غیر ضرورت مند لوگوں کی تنخواہوں میں جن کی تنخواہ بنتی ہی نہیں یہ سینکڑوں فیصد اضافہ انصاف کے کون سے ترازو اور جمہوریت کے کس قاعدے ضابطے کے تحت کیا گیا؟ کیا یہ پیسہ غربت کی لکیر سے نیچے چلے جانے والے غرباءو مساکین اور مفلوج اور معدوم ہونیوالی تعلیم کے لئے مختص نہیں ہو سکتا ہے؟ جامعات ملازمین کا یہ استفسار بالکل بجا ہے لیکن اس سوال میں اس شق کا شامل ہونا بھی ضروری ہوگا کہ جس سینکڑوں فیصدبلا ضرورت اضافے کا ذکر کیا جا رہا ہے تو کیایہ صرف سرکار یا برسراقتدار اتحاد کا کیا دھرا ہے یا اس میں ملک کی تمام پارلیمانی جماعتیں بھی شامل ہیں؟ یہی وہ وقت ہے کہ عوام ہوش کے ناخن لیں اور اس ملک کی سیاست جمہوریت آئین اور اپنے بنیادی حقوق کے بارے میں سوچیں بصورت دیگر بہت جلد تعلیم کا قصہ ہی ختم ہو جائے گا‘ اور غربت کی لکیر کے نیچے جانے والوں کی رفتار مزید تیز ہو جائے گی‘ اس وقت تو سب سے زیادہ چبھنے والا خدشہ یہ ہے کہ بجٹ میں جن اضافہ جات کا اعلان کیا گیا ہے تو ڈسپیرٹی الاﺅنس سمیت کسی بھی اضافے کی ادائیگی کے لئے جامعات کو گرانٹ تو ملتی ہی نہیں جبکہ یونیورسٹیاں پہلے سے تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کے بقایا جات کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہیں تو ایسے میںجب یونیورسٹیاں بند نہیں ہوں گی تو اور کیا ہوگا؟۔