مجسٹریسی نظام کی بحالی

 خیبرپختونخوا حکومت نے صوبے میں 17سال بعد مجسٹریسی نظام کی بحالی کا فیصلہ کیا تھااور مجسٹریسی نظام کی بحالی کےلئے اقدامات بھی شروع کر دئیے گئے تھے ‘مجسٹریسی نظام نہ ہونے کی باعث صوبے میں امن و امان کی صورتحال ‘ مہنگائی پر قابو پانے کے حوالے سے صوبائی حکومت کو مشکلات درپیش آرہی تھیں‘خیبرپختونخوا میں مجسٹریسی نظام کی بحالی کے بعد ڈپٹی کمشنرز کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے اختیارات دئیے جاتے تھے‘ اس حوالے سے محکمہ قانون اور اسٹیبلشمنٹ نے تیاریاں بھی شروع کی تھیں جسکا مقصد 2000ءسے پہلے والا مجسٹریسی نظام بحال کرنا تھا‘موجودہ وقت میں مجسٹریسی نظام کی غیرفعالیت سے جہاںذخیرہ اندوزوں‘ تجاوزات اور مہنگائی مافیا کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے‘وہیں انتظامیہ بھی پرائس کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ جب انگریز ہندوستان پر قابض ہوئے تو ایک ایسے سسٹم کی ضرورت محسوس کی گئی کہ مٹھی بھر افسران کے ذریعے پورے برصغیر کو آسانی و کامیابی کےساتھ کنٹرول کیا جاسکے جس کی روشنی میں ایگزیکٹیو مجسٹریسی نظام رائج کیا گیا‘ اس نظام میں بہت سی خامیاں ضرور ہوں گی لیکشن عشروں کی آزمائشوں نے اسے آزمودہ نظام بنادیا انگریزوں کےخلاف جدوجہد کرنےوالی کانگریس اور مسلم لیگ دونوں نے ہی انگریزوں کے اس سسٹم کو قائم رکھا‘پاکستان میں پھر یہ نظام عشروں تک قائم رہا‘ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے پاس خاصے اختیارات ہوا کرتے تھے‘ پھر اس کے نیچے سب ڈویژنل مجسٹریٹس اور ایگزیکٹیو مجسٹریٹس ہوا کرتے تھے‘یوں ضلع کی سطح پر حکومتی رٹ کے نفاذ کا موثرنظام موجود تھا۔مجسٹریسی نظام کی روایت بہت فائدہ مند رہی ہے اس سے عوام کو بہت فائدہ ہوتارہا ہے اور مہنگائی کے جن کو بھی قابو کرنے کےلئے یہ نظام فائدہ مند ثابت ہوا۔

ہمارے ملک میں بھی قیمتوں کو مانیٹر کرنے کےلئے ایک آدھ بار کوشش ضرور کی گئی تھی کیونکہ بعض پچھلے ادوار حکومت میں اشیاءکی قیمتوں کو مانیٹر کرنے کےلئے فوڈانسپکٹر اور درجہ اول مجسٹریٹ متعین تھے ‘جو اس بات پر نظر رکھتے تھے کہ مارکیٹ میں کس چیز کی قیمت میں کس حدتک اضافہ ہو رہا ہے اور اس کی کوالٹی یعنی معیار کیسا ہے پھر وہ اس صورتحال سے حکومت کو آگاہ کرتے تھے اور ازاںبعد فوری احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے نتیجے میں حالات معمول پر آجاتے تھے‘حکومت کی طرف سے مقررکردہ پرائس کنٹرول کمیٹیاںبھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرتی تھیں اور بازاروں اور مارکیٹوں میں گھوم پھر کر اس امر کا جائزہ لیتی تھیں کہ اشیائے ضروریہ کی فراہمی کی صورتحال کیا ہے اور وہ کن نرخوں پر فروخت ہو رہی ہیں لیکن اب یہ اقدامات قصہ پارینہ بن کر رہ گئے ہیںاور جسکا جو جی چاہے نرخ وصول کررہاہے۔

 حکومت نے اب دوبارہ سے اس نظام کو نافذ کرنے کا ارادہ کیا ہے تاکہ مجسٹریٹ بہت چابکدستی سے کام کرکے عوام کو فائدہ پہنچائیں‘جب نئے مجسٹریٹ تعینات ہوں تو انہیں ماضی کے سرفراز خان مجسٹریٹ جیسا بن کر عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے میں اہم کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ عوام کو مہنگائی کے عذاب سے کسی حد تک نجات ملے۔مہنگائی کے خاتمہ مےں تاجر تنظیمیں نہایت اہم رول ادا کر سکتی ہیں ہر بازار میں عہدیداران موجودہےںوہ رضاکارانہ طور پر اپنے بازار کے ساتھیوں کو اس بات کا پابند بنائیں کہ وہ ہر چیز حکومت کے طے کردہ ریٹ پر بےچےں اور اگر کوئی اس کی خلاف ورزی کرے تو حکومت کی مدد سے اس کےخلاف ایکشن لیا جائے ہمیں خود بھی کچھ کرنا ہوگا، ظلم کےخلاف آواز اٹھانی ہوگی ۔ وزیراعظم سے لے کرکونسلر تک سب دعویٰ کرتے ہیں کہ مہنگائی پر قابو پا لیا جائے گا لیکن عملاً ہوتا ایسا نہیں ہے حکمرانوں کو یہ حقیقت سامنے رکھنی چاہئے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی بہت سی سماجی برائیوں کو جنم دیتی ہے ‘پاکستان میں جرائم اور امن و امان قائم کرنے اور معاشی استحکام کو یقینی بنانے کےلئے ضروری ہے کہ مہنگائی پر قابو پایا جائے تاکہ عام آدمی کی زندگی میں بہتری آسکے اگر مہنگائی پر قابو نہ پایا تو حکومت کی معاشی حکمت عملی بے ثمر رہے گی جس کے نتیجے میں بدامنی اور خلفشار زیادہ شدت سے بڑھے گا۔ ان تمام حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکومت سے درخواست ہے کہ جلد از جلدمجسٹریسی نظام کو بحال کر دیا جائے تاکہ قیمتوں کو قابو میں رکھنے کےلئے موثراقدامات کئے جاسکیں۔