مہنگائی میں اضافہ کیسے روکا جائے؟

اس وقت پاکستان کا شمار دنیا کے ان پندرہ ملکوں میں ہوتا ہے، جہاں مہنگائی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔پاکستان میں بجلی،پٹرول، ڈیزل، گیس اور مٹی کے تیل کی قیمت بہت بڑھ چکی کیونکہ بیشتر ایندھن درآمد ہوتا ہے۔ مقامی قدرتی گیس کی قیمت میں بھی از حداضافہ کیا جاچکا۔ ٹرانسپورٹ سے لے کر کارخانوں اور دفاتر تک قومی معیشت کا ہر شعبہ ایندھن پر انحصار کرتا ہے، اس لیے اس کے مہنگا ہونے پر ہر شے کی لاگت بڑھ جاتی ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف کے معاہدے کی پابندی، عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ روپے کی کمزور قدر بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں خاطر خواہ اضافے کا سبب ہے۔ جب تک ملک میں معاشی سرگرمیوں میں تیزی نہیں آئے گی اور ایکسپورٹ میں اضافہ نہیں ہوگا، ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کا امکان نہیں۔اب وقت آگیا ہے کہ ہمارے اپنے تیل کے ذخائر جو زمین و سمندر کی تہہ میں پوشیدہ ہیں ان کی دریافت اور ان سے استفادہ کرنے کی پالیسی اپنائی جائے۔ پٹرول کو ملکی معیشت کا ایندھن قرار دیا جاتا ہے یعنی صرف پٹرول مہنگا نہیں ہوتا بلکہ پٹرول مہنگا ہونے سے بالواسطہ طور پر ہر شے مہنگی ہو جاتی ہے۔ بجلی کے ماہانہ بلوں میں جوفیول ایڈ جسٹمنٹ چارجز وصول کیے جاتے ہیں وہ پٹرول کی قیمت کے حساب سے ہی وصول ہوتے ہیں یعنی آج اگر پٹرول مہنگا ہوا ہے تو اس پٹرول سے بننے والی بجلی کی قیمت میں یہ اضافہ آئندہ بجلی کے بلوں میں وصول کیا جائے گا۔بجلی کی قیمت تو صرف ایک مثال ہے پٹرول کی قیمت بڑھنے سے بنیادی اشیائے ضرور یہ کی ہر چیز مہنگی ہو جاتی ہے ، جو چیز پٹرول سے دور کی نسبت نہ رکھتی ہو وہ بھی مہنگی ہو جاتی ہے۔ قیمتیں بڑھنا کوئی نیا کام نہیں ہے عرصہ دراز سے دیکھتے آ رہے ہیں، پٹرول مہنگا ہونے سے عام آدمی کی صرف معیشت کو دھچکا لگے گا بلکہ معاشرت بھی متاثر ہوگی ، رویے بھی متاثر ہونگے اور ذہنی صحت بھی انحطاط کا شکار ہوگی۔ ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے غریب عوام کو مشکلات کاسامنا کرنا پڑتاہے۔دوسری طرف ملک میں آٹے ، چینی ، گھی ، تیل ، سبزیاں، گوشت اور دیگر اشیا ضروریہ کی قیمتوں میں سو فیصد سے زیادہ اضافہ ہو گیا ہے جبکہ پاکستان میں 40 فیصد سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ ان کی آمدنی کے ذرائع انتہائی محدود ہیں۔ اوپن مارکیٹ میں ڈالر تین سو روپے سے بھی تجاوز کر گیا ہے جس کے اثرات سے زندگی کا کوئی شعبہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہا۔ ایسے میں عوام کی پریشانیوں اور مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت کو چاہئے کہ وہ حالیہ اضافہ فوری طور پر واپس لے بلکہ ممکن ہو تو اس حوالے سے سبسڈی فراہم کرے، تا کہ عام استعمال کی یہ اشیاءعوام کی قوت خرید کے اندر ر ہیں اور اس کی وجہ سے عوامی سطح پر مسائل کے بڑھنے کا جو خدشہ بڑھ رہا ہے، وہ ختم ہوجائے۔قارئین ! چین میں غربت میں کمی اور مقامی ترقی کی ایک وجہ ملک میں مقامی تجارت کا فروغ ہے یعنی ایکسپورٹ کے علاوہ چین نے تقریبا ًڈیڑھ ارب آبادی والے ملک کی بڑی مارکیٹ کو بیرونی سرمایہ کاروں اور مقامی بزنس مینوں کیلئے فراہم کیا۔ چین میں قوت خرید بڑھنے سے بے شمارمقامی برانڈز کامیاب ہوئے اور آج مقامی مارکیٹ میں بڑا شیئر رکھتے ہیں۔ چین نے حکومتی کمپنیوں کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے اشتراک سے نہایت کامیابی سے چلایا جبکہ پاکستان ایک بڑی مارکیٹ ہونے کے با وجود مقامی تجارت اور وینڈر انڈسٹری کو فروغ نہیں دے سکا ۔ غربت میں کمی کیلئے ہمیں نئی ملازمتوں کے مواقع اور بلند گروتھ کی حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ حکومت کا افراط زر پر قابو پانے کیلئے موجودہ ماڈل زیادہ موثر نتائج دینے میں ناکام ہے کیونکہ پاکستان کے چین کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ چین کے تعاون سے ملک میں بیروزگاری اور غربت میں کمی کیلئے چین کے ماڈل پر عمل کرے۔