معاشی استحکام کے اہم منصوبے

وسائل کے اعتبار سے وطن عزیز دنیا کا مالدار ترین ملک ہے ۔ اپنے اس دعوے کی تصدیق کے لئے قارئین حضرات کی خدمت میں ٹھوس چند ثبوت پیش کررہا ہوں دنیا میں معدنیات بالخصوص آئل اور گیس رکھنے والے 10 بڑے ممالک میں پہلے نمبر پر روس ہے جس کے معدنی ذخائر 75 کھرب ڈالر ہیں جن میں کوئلہ، تیل، قدرتی گیس ، سونا اور لکڑی شامل ہیں ۔ دوسرے نمبر پر امریکہ جسکے معدنی ذخائر 45 کھرب ڈالر ہیں جس میں 90 فیصد کوئلہ اور ٹمبر کے علاوہ تانبا،آئل اور گیس شامل ہیں۔ تیسرے نمبر پرسعودی عرب جس کے معدنی ذخائر34 کھرب ڈالر ہیں جو آئل ایکسپورٹ کرنیوالا بڑا ملک ہے۔ چوتھے نمبر پر کینیڈاجس کے معدنی ذخائر 33 کھرب ڈالر ہیں جن میں آئل اور گیس شامل ہے۔ پانچویں نمبر پر ایران جس کے معدنی ذخائر 27 کھرب ڈالر ہیں جس میں آئل اور گیس شامل ہیں۔ چھٹے نمبر پر چین جس کے معدنی ذخائر 23 کھرب ڈالر ہیں جس میں کوئلہ، سونا اور المونیم وغیرہ شامل ہیں۔ ساتویں نمبر پر برازیل جس کے معدنی ذخائر 22 کھرب ڈالر ہیں جس میں سونا، لوہا اور گیس شامل ہیں۔ آٹھویں نمبر پر آسٹریلیا جسکے معدنی ذخائر 20 کھرب ڈالر ہیں جس میں کوئلہ، سونا، تانبا، ٹمبر اور یورینیم شامل ہیں۔ نویں نمبر پر عراق جس کے معدنی ذخائر 16 کھرب ڈالر ہیں جس میں تیل اور گیس شامل ہیں۔ دسویں نمبر پر وینزویلا جس کے معدنی ذخائر 14 کھرب ڈالر ہیں جس میں تیل، گیس اور لوہے کے ذخائر شامل ہیں۔جبکہ پاکستان کے پاس 50 کھرب ڈالر کے معدنی ذخائر ہیں۔ جس میں تھر میں دنیا کے کوئلے کے د وسرے بڑے 185) ارب ٹن)ذخائر، ریکوڈک میں تانبے کے پانچویں بڑے 6 ارب ٹن ( 22 ارب پانڈز مالیت) ذخائر اور سونے کے چھٹے بڑے 42.5 ملین اونس (13ملین پانڈ مالیت)کے ذخائر پائے جاتے ہیں اور صرف ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی مالیت 500 ارب ڈالر ہے لیکن ہم بدقسمتی سے ان معدنی وسائل سے فائدہ نہیں اٹھا سکے‘حال ہی میں جو خصوصی سرمایہ کاری کونسل کا چوتھا فیگ شپ پروجیکٹ ڈسٹ ٹو ڈویلپمنٹ لانچ کیا گیا ہے جس کا مقصد ملکی معدنیات کی کان کنی اور ایکسپورٹ سے 6 کھرب ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری لانا ہے۔ اس سلسلے میں یکم اگست کو اسلام آباد میں پہلی منرل سمٹ کا انعقاد کیا گیا جس میں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سمیت 30 ممالک کے سرمایہ کاروں اور کان کنی کے ماہرین نے شرکت کی۔ اس موقع پر یواے ای نے 22 ارب ڈالر اور سعودی عرب نے 40 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا عندیہ دیا جس میں پہلے مرحلے میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری شامل ہے۔ ماضی میں کان کنی کے شعبے میں لائسنس اور این اوسی لینے میں برسوں لگ جاتے تھے لیکن اب SIFC کے تحت نئی مائننگ پالیسی کے تحت بلوچستان اور دیگر صوبوں میں سرمایہ کاروں کو سیکورٹی اور پالیسیوں کے تسلسل کی گارنٹی دی گئی ہے۔ نئی پالیسی میںریکوڈک منصوبے پر بھی عملدرآمد ہوگاجس سے پہلے مرحلے میں 2025 تک 4 لاکھ میٹرک ٹن تانبا (3.7ارب ڈالر)اور 4 لاکھ اونس سونا ( 718ملین ڈالر)سالانہ حاصل کیا جائے گا جس سے اُمید کی جاتی ہے کہ ریکوڈک منصوبہ بلوچستان کی ترقی اور پاکستان کی معیشت میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ تھر میں کوئلے کے ذخائر سعودی عرب اور ایران کے مجموعی 400 ارب بیرل تیل کے ذخائر کے مساوی ہیں جن سے 200 سال تک سالانہ ایک لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے تھر کے کوئلے سے نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے 2 منصوبے کامیابی سے 1980 میگا واٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں جو ہماری مجموعی بجلی پیداوار کا تقریباً 18 فیصد ہے جس میں 660 میگاواٹ کا پہلا پروجیکٹ اینگرو کے ساتھ جولائی 2019 میں مکمل ہوا اور 1320 میگاواٹ کا سی پیک کے تحت دوسرا پروجیکٹ شنگھائی الیکٹرک کے ساتھ فروری 2023 میں مکمل ہوا۔دوسری طرف پاکستان میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے پر کچھ ممالک کی طرف سے تنقید دہرا معیار ہیں کیونکہ جنوبی افریقہ میں 93 فیصد، آسٹریلیا میں 78 فیصد، پولینڈ میں 87 فیصد، چین میں 79 فیصد‘قازقستان میں 75 فیصد، بھارت میں 68 فیصد، اسرائیل میں 58 فیصد، یونان میں 54 فیصد، مراکش میں 51 فیصد، امریکہ میں 45 فیصد اور جرمنی میں 41 فیصد بجلی کو ئلے سے پیدا کی جاتی ہے جبکہ پاکستان میں صرف 13 فیصد بجلی کو ئلے سے پیدا کی جارہی ہے حالانکہ عالمی معیار کے مقابلے میں پاکستان میں کاربن کا اخراج نہایت کم ہے۔