تتلیاں اڑتی ہیں اور ا ن کے پکڑنے والے

 ان دنوں روزمرہ کی گفتگو میں جو لفظ کل تک بہت زیادہ استعمال ہوتے تھے اب ان الفاظ کے متبادل کچھ نئے الفاظ غیر محسوس طریقے سے ہماری بول چال کا حصہ بن گئے ہیں، ظاہر ہے اب ہم بیک وقت کئی زبانوں کی زد میں ہیں، اگر چہ یہ سلسلہ پہلے بھی ہوتا تھا کہ گھر میں‘سکول میں اور بازار میں ہمیں مختلف زبانوں سے واسطہ پڑھتا تھا، لیکن وہ زبانیں بہت دور دراز سے نہیں آتی تھیں،وہ ہمارے ہی ماحول میں سانس لیتی تھیں، پشاور، ہفت زبان شہر کہلاتا تھا،مگر یہ سب زبانیں اسی ماحول کی پروردہ تھیں‘سب زبانیں اپنی ہی تھیں پشاوری یہ ساری زبانیں بولتے اور سمجھتے تھے، پھر یہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ ہوا کہ ان زبانوں کے الفاظ بھی غیر محسوس طریقے سے ایک دوسرے کی زبان میں شامل ہو گئے،یہ انگریزی کی عملداری سے پہلے کا پشاور تھا،جب تجارتی قافلے شہر میں گر دو پیش سے آتے،قیام کرتے اور اپنی شامیں قصہ خوانوں سے داستانیں سن کر بتاتے تھے، پھر پشاور میں عالمی زبانوں نے یلغار کی۔پہلے پہلے انگریزی آئی اور تعلیمی اداروں کی حد تک ہی سہی فرانسیسی،چینی اور جرمن زبانوں کے شعبے بھی سرکاری اور نجی درسگاہوں میں کھل گئے، ایسا دنیا بھر میں ہوتا ہے مگر یہاں اپنی ماں بولی کی قیمت پر انگریزی کا چلن عام ہوا اور روز مرہ کی بول چال میں تیزی سے انگریزی کا عمل دخل بڑھ گیا اور اب تو اس کی جڑیں بہت دور تک پھیل گئیں، راز الہ آبادی نے کہا ہے کہ 
 آشیاں جل گیا گلستاں لٹ گیا
 ہم قفس سے نکل کر کہاں جائیں گے
 اتنے مانوس صیاد سے ہو گئے
 اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے 
یہاں تک بھی بات رہتی تو گوارا تھا اب ایک نیا ماحول بن رہا ہے کل تک جن بچوں کو انگریزی کے قریب لانے کی شعوری کوشش ہم نے کی تھی اب پڑوسی ملک کے بڑوں نے بچوں کیلئے ٹی وی چینلز اور کمپیوٹر کے یو ٹیوب کی طرح کے سائٹس پر انگریزی کی کارٹون کہانیوں کو، ہندی میں ڈب کر کے نشر کرنا شروع کر دیا جسے دیکھ کر اب بچے بڑی سہولت کے ساتھ شستہ ہندی زبان میں گفتگو کرنے لگے ہیں، ”میں نے رات سندر سپنا دیکھا“ یا ”میرے اندر اب شکتی آ گئی ہے“ قسم کی بات چیت ہر گھر میں سنائی دینے لگی ہے، بچوں کے ساتھ یہ ہوا اور بڑے انگریزی کے جن الفاظ کے عادی ہو چکے تھے اب ان الفاظ کے ساتھ بھی کھلواڑ شروع ہو گیا، کل تک کا شیڈول اب سکیژول ہو گیاہے، اینی ہوو اب اینی ویز ہو گیا ہے اور کل تک جس ہوو آر یو کا جواب ”آئی ایم فائن“ تھا اب آئی ایم گڈ ہو گیا ہے، مجھے یاد ہے کہ میرے ایک ٹی وی سیریل میں باہر سے آیا ہوا ایک نسوانی کردار ایسے سوال کے جواب میں جب آئی ایم گڈ کہتا ہے تو میرے پروڈیوسر نے کہا یہ کیا ہے، میں نے کہا اب یوں کہا جاتا ہے اور یہ کردار چونکہ امریکہ سے آیا ہے تو اب وہاں ا حوال پرسی کا جواب اسی طر ح دیا جاتا ہے، تو پروڈیوسرنے کہا یار کوئی مسئلہ نہ بن جائے، یہ دس گیارہ برس پرانی بات ہے تب تک یہ ا مریکن ا نداز عام نہیں تھا، ہم چونکہ برطانوی راج کے بعد انہی کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے اس لئے امریکیوں کے انگریزی کے ساتھ کئے گئے سلوک سے عادی ہونے میں وقت لگا،کل کی بات ہے کہ مجھے معروف افسانہ و انشائیہ نگار مشتاق احمد کا فون آیا،پشاور کے باسی مشتاق احمد گزشتہ چھے دہائیوں سے فینکس امریکہ میں ہیں،وہ بھی انگریزی کے ساتھ ہونے والے اس برتاؤسے زیادہ خوش نہیں ہیں ساٹھ سال وہاں رہنے اور چیف انجینئرکے طور پر خدمات انجام دینے اور امریکن انگریزی کو اوڑھنا بچھونا بنانے کے باوجود وہ پاکستان کی سیکھی ہوئی اور انگلینڈ میں بولی ہوئی انگریزی ہی کو عزیز رکھتے ہیں‘مشتاق احمد کہہ رہے تھے کہ اردو نثر لکھتے ہوئے جب انگریزی کا کوئی لفظ استعمال کئے بغیرچارہ نہ ہو تو اسے کس طرح لکھا جائے،یعنی انگریزی ہجوں کے ساتھ یا پھر اردو کے ہجوں کی مدد سے لکھا جائے، میں نے انہیں کہا کہ میں تو ہمیشہ اردو کے ہجوں کے ساتھ لکھتا ہوں کیونکہ اس طرح وہ پڑھنے والے بھی آسانی سے سمجھ جاتے ہیں جنہیں انگریزی پڑھنے میں دقت کا سامنا ہوتا ہے۔ ویسے تو آج کل انگریزی لکھنا ایک فیشن اور بڑی حدتک سٹیٹس سمبل بن چکا ہے اور یار لوگ بھلے سے خود انگریزی سمجھیں نہ سمجھیں شادی کارڈ سے لے کر وزیٹنگ کارڈ تک انگریزی میں ہی لکھواتے اور بناتے ہیں اور دستخط تو خیر ہوتا ہی انگریزی میں ہے۔ ہر چند میرے پاسپورٹ، شناختی کارڈ پر اور سرکاری کاغذات پر دستخط انگریزی کے ہیں جو نہ جانے کب سے چلے آ رہے ہیں لیکن اس کے علاوہ میں دستخط اردو ہی میں کرتا ہوں،مجھے یاد ہے کہ کالج میں جب کوئی سرکاری خط اطلاع کے لئے پروفیسر صاحبان کے پاس آتا تو میں ہمیشہ اردو میں دستخط کرتا رہا ہوں،میں نے مشتاق احمد سے کہا کہ اردو نثر میں بھی بہت سے دوست انگریزی کا لفظ انگریزی حروف تہجی میں لکھتے ہیں اس لئے دونوں طریقے درست ہیں، وہ کہنے لگے اصل میں میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں کمپیوٹر پر ”ورڈ“ میں افسانہ یا انشائیہ لکھتا ہوں تو جب انگریزی لفظ انگلش حروف میں لکھوں تو اردو کے لفظ دائیں بائیں ہو جاتے ہیں، میں نے کہا کہ یہ مسئلہ یونی کوڈ کے ساتھ ہے، جب آپ فون پر بھی کسی کے فون نمبر کے ساتھ اس کا نام اردو فونٹ میں لکھیں تو سارے ہندسے الٹ پلٹ جاتے ہیں اس لئے بہتر یہی ہے کہ انگریزی لفظ اردو ہجوں کے ساتھ لکھے جائیں میں خود ان پیج میں لکھتا ہوں حالانکہ ”ان پیج“ میں انگریزی کی سہولت موجود ہے‘کہنے لگے انگریزی کا یہ رونا میں نے ایک انشائیہ میں چھیڑا ہے، میں نے کہا جی مجھے یاد ہے، جس میں آپ نے اپنے سکول ٹیچر ماسٹر بشیر بلوچ کا بھی ذکر کیا ہے۔ کہنے لگے بالکل وہی اور پھر وہ چپ ہو گئے میں نے کہا خیریت کہنے ایک منٹ پلیز میں بات کرتا ہوں، میں چپ ہو گیا تو کہنے لگے باہر کیا فروخت ہو رہا ہے، میں نے پوچھا کہاں، کہنے لگے ابھی مجھے گلی سے کسی کی آواز آئی، میں نے کہا سبزی والا ہے روز اس وقت آ تا ہے، بس اس کے بعد انگریزی کا بستر لپیٹ دیا گیا اور وہ پچاس ساٹھ برس پہلے پشاور کی گلیوں میں پھیرا لگانے والوں کی آوازوں میں بہہ نکلے اور مجھے بھی سنانے لگے، کھوئے والی اے، لال گلاب اے، چھلیاں چھلائیاں چڑیا ں لے لو آنے دی دو“اور بہت سی ایسی آوازیں ان کے حافظہ میں مو جود تھیں، یوسف خان (دلیپ کمار) کی وجہ سے محلہ خدا داد کے مشہور زمانہ سکول میں یہ بھی پڑھے ہیں اس لئے اس کے آس پاس گلیوں کا ذکر بھی چل پڑا، اب وہ ذہنی اور قلبی طور پر فینکس کی بجائے پشاور میں تھے میں نے سوچا کہ انہیں پشاور نہیں بھولتا تو یہاں کی پڑھی اور سیکھی ہوئے انگریزی بھلا کیسے بھول پائیں گے،میں چپ تھا اور وہ تھے کہ اپنے محبوب شہر کی ایک ایک گلی اور ایک ایک بازار کو آوازیں دے رہے تھے، مجھے مصطفےٰ زیدی کا وہ شعر یاد آ گیا جو میں نے یوسف خان(دلیپ کمار) شو کی کمپیئرنگ کرتے ہوئے ان کو ڈائس پر آنے کی دعوت دیتے ہوئے پڑھا تھا۔
 تتلیاں اڑتی ہیں اور ان کے پکڑنے والے
 سعی ئ ناکام میں اپنوں سے بچھڑ جاتے ہیں