امریکی اانخلاء۔۔۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے دوحا معاہدے کے بعد سے افغانستان میں طالبان کی عملداری بڑھنے کا سلسلہ زور پکڑتا جا رہا ہے، آئے روز یکے بعد دیگرے اضلاع پر طالبان قابض ہورہے ہیں، اطلاعات کے مطابق طالبان کی بڑھتی ہوئی کاروائیوں نے افغانستان کے اندر عوامی سطح پر خوف بڑھا دیا ہے جس کی وجہ سے ملک کے اندر آئی ڈی پیز کی تعداد میں پریشان کُن حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ رواں سال مارچ کے مہینے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں بتایا گیا ہے کہ بد امنی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے ساتھ ہی لوگوں کی بڑی تعداد محفوظ مقامات کی تلاش میں نقل مکانی پر مجبور ہے، اس رپورٹ کے مطابق ان افرادمیں واضح اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔حالات اور واقعات آنے والے وقت میں افغانستان کے اندر خانہ جنگی کی طرف جاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں جس کے نتیجے میں نہ صرف آئی ڈی پیز کی تعداد مذید بڑھے گی بلکہ یہ ایک بہت بڑی ہجرت کی شکل بھی اختیار کرسکتی ہے، اس صورت میں ایران اور پاکستان ہی افغان مہاجرین کیلئے دو متبادل ہوں گے۔ ادھر دوسری جانب پاکستان نے پہلے ہی پوری دُنیا پر واضح کردیا ہے کہ پاکستان افغانستان سے کسی بھی ممکنہ ہجرت کو برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتا کیونکہ پاکستان پہلے ہی تین ملین افغان پناہ گزینوں کا بوجھ اُٹھا رہا ہے۔طالبان کے افغانستان کے اضلاع پر قابض ہونے اور امریکی فوج کے انخلاء کو افغانستان میں روس کی شکست سے تشبیہہ دی جارہی ہے، لیکن حالات کی نزاکت کسی اور طرف بھی اشارہ کر رہی ہے جس سے نہ صرف متعدد سوالات جنم لے رہے ہیں بلکہ چند پراسرار مفروضے بھی پیدا ہو رہے ہیں!ایک بات تو اٹل ہے کہ امریکہ افغانستان سے اپنے فوجی نکال رہا ہے لیکن امریکہ افغانستان کے سسٹم سے بالکل بھی باہر نہیں ہورہا، وہ افغانستان کے تمام تر نظام کو اپنے ہاتھ رکھنے کی مکمل کوشش کرتا رہے گا، اسی تناظر میں مفروضہ تو یہ بھی سامنے آرہا ہے کہ امریکہ دراصل خود ہی افغانستان میں خانہ جنگی چاہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے افغانستان سے عجلت میں انخلاء کیا اور مستقبل کی انتظامیہ کیلئے کوئی خاکہ نہیں دیا یعنی معاملات کو سلجھنے نہیں دیا۔ ادھر امریکہ پہلے ہی اشارہ دے چکاہے کہ اگر طالبان نے افغانستان میں حکومت بنائی تو امریکہ ان کی مالی امداد تب ہی کرے گا جب طالبان انسانی حقوق کی پامالی کے راستے پر نہ چلیں، گذشتہ دنوں برطانیہ کی جانب سے ایسے خبریں آئی ہیں کہ برطانیہ مستقبل میں طالبان کی ممکنہ حکومت کے ساتھ کام کرسکتا ہے اگر وہ انسانی حقوق کی تحفظ کو یقینی بنائے، غالب گمان یہی ہے کہ اسی طرح کے بیانات نیٹو کے دیگر بڑے ممالک کی جانب سے بھی دیکھنے کو ملیں گے۔ اسی کانسپریسی کے حوالے سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ افغانستان میں خانہ جنگی کیوں چاہے گا؟ اس سوال کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا راستہ روکنے کیلئے امریکہ شاید کسی بھی حدتک جا سکتا ہے جس کیلئے افغانستان میں خانہ جنگی اس وقت شاید امریکہ کا اکلوتا آپشن ہے۔افغانستان میں صورتحال خراب ہونے کے بعد پاکستان کو افغان مہاجرین کی ممکنہ لہر کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس کے لئے بروقت منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اور جس طرح پہلے ہی پالیسی بنائی گئی ہے کہ ماضی کے برعکس افغان مہاجرین کو سرحدوں کے قریب کیمپوں میں بسایا جائے گا اور وہاں پر ان کی ضروریات کا خیال رکھا جائے گا۔فرض کرلیتے ہیں کہ مذکورہ بالا کانسپریسی آنے والے وقت میں حقیقت بن کر سامنے آتی ہے تو افغانستان اور پاکستان سمیت پورے خطے کا سٹریٹیجک منظر نامہ کیا ہوگا؟۔ اس صورتحال میں حقیقی فاتح کون اُبھر کر سامنے آئے گا؟ امریکہ، طالبان یا پھر دیگر قوتیں؟ درحقیقت اس میں فاتح ہونے کے دعوے جو بھی کرتا رہے لیکن اس کے نتیجے میں خطے کا امن مستقل خطرات سے دوچار رہے گا جس سے ترقی و خوشحالی کے وہ منصوبے جو چین نے بیلٹ اینڈ روڈ اینی شیئے ٹیو کی صورت میں تشکیل دئیے ہیں متاثر ہوسکتے ہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان خطے کے ممالک کے ساتھ مل کر ایسی پالیسی تشکیل دے جس سے نہ صرف پاک چین مشترکہ اقتصادی منصوبے پروان چڑھ سکے بلکہ دیگر ممالک تک ان کو وسعت دی جا سکے۔