طالبان کے نئے دور کا آغاز

افغانستان میں طالبان کے نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے اور امریکہ اپنے اتحادی نیٹو سمیت افغانستان سے تقریباً نکل چکا ہے، امریکہ کی افغانستان میں 20سالہ موجودگی کے خلاف طالبان نے بھر پور جدوجہد کی جس کے نتیجے میں آج افغانستان ایک بار پھر طالبان کے کنٹرول میں ہے۔ طالبان کی 20سالہ جدوجہد میں ان کے ا ہداف بڑے واضح تھے، یعنی افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلاء اورغیر ملکی افواج کی نگرانی میں بنائی جانے والی حکومت اور نظام حکومت کا خاتمہ، اس وقت طالبان مذکورہ دونوں اہداف حاصل کرچکے ہیں، طالبان واضح طور پر جیت چکے ہیں اور ان کے مخالفین ہار چکے ہیں۔ لیکن اب کیا ہوگا؟کیا طالبان افغانستان کو بطور ایک ریاست چلانے میں کامیاب ہو پائیں گے؟ یہ سوالات اس لئے اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ طالبان کا پہلا دور جو کہ 1996سے 2001تک رہا جس میں افغانستان عملی طور پر باقی دنیا سے الگ رہ گیا تھا، لیکن اب جب طالبان دوبارہ سے اقتدار پر قابض ہوچکے ہیں تو حالات پہلے کی طرح نہیں ہیں، آج کی دنیا مکمل طور پر بدلی ہوئی دنیا ہے، اب دنیا کا کوئی بھی ملک باقی دنیا سے الگ تھلگ اپنی سیاسی اور معاشی حیثیت کامیابی سے قائم نہیں رکھ سکتا۔طالبان نے جہاں عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے اچھی پہل کی ہے وہاں خواتین اور بچیوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ حکومتی نظام میں بھی کام کرنے کی اجازت دے دی ہے جس کو مثبت طورپر لیا جارہا ہے، خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں کو بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے کام معمول کے مطابق جاری رکھیں، طالبان کی جانب سے کئے جانے والے یہ اعلانات خوش آئند تو  ہیں لیکن یہ تمام مرد اور عورتیں جو اپنا کام سرکاری دفاتر، ہسپتالوں، سکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں جاری رکھیں گے انہیں ہر مہینے کے آخر میں تنخواہیں دینا ہوں گی، سوال یہ کہ اس کے لئے پیسہ کہاں سے آئے گا؟ کیونکہ امریکہ اور نیٹو تو افغانستان سے نکل چکے اور افغانستان چلانے کے لئے پیسے بھی امریکہ، نیٹو اور دیگر یورپی ممالک مہیا کرتے تھے جس پر بظاہر پورے ملک کا نظام کھڑا کیا گیا تھا، اب اگر ان ممالک کی طرف سے مالی امداد کی فراہمی بند کردی گئی تو طالبان افغانستان کا نظام کس طرح چلائیں گے؟ لاکھوں لوگوں کی تنخواہیں، ہسپتالوں میں علاج معالجہ کی سہولیات کس طرح مہیا کی جائیں گی؟ طالبان کے پہلے دور کے آغاز یعنی 1996 میں افغانستان کی آبادی 2کروڑ سے کم تھی لیکن آج افغانستان کی آبادی 4کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے، اس دوران پوری ایک نسل جوان ہوئی،طالبان کو افغانستان کی نئی نسل کے ساتھ بھی چلنا پڑے گا جو کہ کسی بھی طور ایک چیلنج سے کم نہیں ہوگا، اُدھر دوسری جانب امریکہ نے افغانستان کے 9.5ارب ڈالر کے اثاثے منجمد کردیئے ہیں جو کہ افغانستان کی حکومت کے لئے رکھے گئے تھے لیکن طالبان کے حکومت پر قابض ہوتے ہی امریکہ نے فی الوقت یہ منجمد کردیئے ہیں جس سے افغانستان میں نظامِ حکومت چلانے میں شدید مشکلات پیش آئیں گی، امریکہ کی طالبان کی حکومت کے حوالے سے حکمتِ عملی آنے والے دنوں میں مزید واضح ہوجائے گی۔ کینیڈا کی طرف سے پہلے ہی طالبان کی حکومت کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کیا جا چکا ہے، یورپین یونین کی جانب سے کہا گیا ہے کہ یونین طالبان کے طرزِ عمل کو دیکھ کر افغانستان کی امداد جاری رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کرے گی۔طالبان کے لئے ایک اور چیلنج پنجشیر میں تحریک کی صورت میں بھی ہوگا لیکن اس حوالے کہا جا رہا ہے کہ شمال کے بیشتر علاقوں پر چونکہ طالبان پہلے ہی قابض ہوچکے ہیں لہٰذا پنجشیر سے شروع ہونے والی ممکنہ تحریک طالبان کے لئے کسی قسم کا خطرہ ثابت نہیں ہوگی۔ طالبان نے جتنی آسانی کے ساتھ افغانستان میں حکومت پر قبضہ کیا اُتنی ہی مشکلات انہیں حکومت چلانے میں پیش آئیں گی، اب دیکھنا یہ ہے کہ طالبان ان مشکلات کا کس طرح مقابلہ کرتے ہیں اور افغانستان کی بہتری کے لئے کونسا طرزِ عمل اختیار کرتے ہیں؟ طالبان کے طرزِ عمل سے فی الوقت تو ایسا ظاہر ہو رہا ہے کہ بدلی ہوئی دنیا میں طالبان بھی بدل چکے ہیں‘کیونکہ اب تک طالبان اپنے بیانات پر قائم دکھائی دیتے ہیں، دوحا میں ہونے والے مذکرات اور امریکہ کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے کے دوران طالبان کہتے رہے ہیں کہ وہ ماضی کے غلط طرزِ حکومت کو نہیں دہرائیں گے جس کے تحت انسانی حقوق کی پامالی کے بے شمار واقعات سامنے آئے تھے، خاص طور پر خواتین کے حوالے سے جنہیں تعلیم اور روزگار سے زبردستی روکا گیا تھا۔ طالبان کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ آنے والے چند ہفتوں میں جب طالبان کی حکومت کا مکمل ڈھانچہ بن جائے گا تو دیکھتے ہیں کہ دنیا کے کون کونسے ممالک طالبان کی افغانستان میں حکومت کو تسلیم کرتے ہیں؟