پاکستان کا سفر اور پی آئی اے

چند ہفتے قبل پاکستان جانے کا موقع ملا، پاکستان جانے کیلئے میرے سفر کی ابتداء سویڈن کے شمالی شہر Bodenسے ہوئی جہاں سے ٹرین کے ذریعے 12گھنٹے سفر کرنے کے بعد Stockholmکے ائیرپورٹ پہنچا، ائیر پورٹ پر پہنچتے ہی بین الاقوامی سفر کیلئے  لازمی طور پر درکار کورونا کا پی سی آر ٹیسٹ کیاجس کا رزلٹ 8سے 10گھنٹے بعد آنا تھا جبکہ میری فلائیٹ اگلی صبح کی تھی، لہٰذا ائیرپورٹ میں موجود ایک ہوٹل میں ایک رات کے قیام کے کیلئے کمرہ لے لیا، اس کے بعد اپنے موبائل فون میں حکومتِ پاکستان کی جانب پاکستان کا سفر کرنے والوں کے لازمی قرار دیے جانے والے ایپ PassTrackڈاؤن لوڈ کیا جس میں جہاز میں سوار ہونے سے پہلے اپنے سفر کی تمام تر تفصیلات اپلوڈ کرنا پڑتی ہیں یعنی ڈیپارچر، ٹرانزٹ اور پاکستان میں آمد کے ائیرپورٹ کا نام، کورونا پی سی آر ٹسٹ کا منفی رزلٹ اور کورونا ویکسین سرٹیفیکیٹ، واضح رہے کہ پی سی آر کا رزلٹ مثبت آنے کی صورت میں مسافر کو سفر کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔میری دو  فلائٹس ڈچ ائیرلائن KLMکے ذریعے تھیں جبکہ ایک فلائٹ پی آئی اے کے ذریعے، لیکن مجھے پی آئی اے کی فلائٹ کا شدت سے انتظار تھا کیونکہ آخری دفع میں نے پی آئی اے میں سال 2013میں سفر کیا تھا۔ بحر حال اگلی صبح KLMکے ذریعے پہلی فلائٹ سٹاک ہوم سے ایمسٹرڈیم کی لی جو ایک ڈیڑھ گھنٹے پر محیط تھی، ایمسٹرڈیم کے ہوئی اڈے جس کا نام سخی پول ہے پر 2گھنٹے اپنی اگلی پرواز کیلئے انتظار کرنا تھا جو کہ KLMہی کے ذریعے ایمسٹر ڈیم سے دبئی کی تھی، یہ فلائٹ تقریباً چھ گھنٹے کی تھی جو کہ اپنے وقت پر لینڈ کر گئی، لینڈ کرتے ہی تمام مسافروں نے تالیاں بجا کر جہاز کے عملے کا شکریہ ادا کیا اور جہاز کے تمام مسافر اپنی اپنی منزلوں کی طرف رواں دواں ہوگئے، میں نے انفارمیشن سکرین پر پی آئی اے کی پشاور جانے والی فلائٹ کی تفصیلات دیکھیں، یہاں میرا ٹرانزٹ 4گھنٹے کا تھا لہٰذا وقت گزارنے کیلئے ڈیوٹی فری ائیریا میں وینڈو شاپنگ کو ترجیح دی اور پی آئی اے میں سالوں بعد سفر کرنے کیلئے میری جستجو بڑھتی جا رہی تھی، خیر ٹائم گزرتا گیا اور کچھ ہی دیر بعد مجھے معلوم ہو ا کہ پرواز میں ایک گھنٹے کی تاخیر ہوگئی ہے، تاخیر کی خبر کے ساتھ ہی پی آئی اے سلوگن میرے ذہن میں گھونجنے لگا یعنی Great people to fly with، واضح رہے کہ یہ سلوگن منفی طور پر میرے ذہن میں آیا تھا لیکن پھر مجھے خیال آیا کہ پرواز میں تاخیر تو کہیں پر بھی ہوسکتی ہے لہٰذا اس تاخیر پر مجھے اپنی قومی ائیرلائن کے بارے میں کوئی منفی رائے قائم نہیں کرنی چاہیے،  لہٰذا میری اُمید قائم رہی کہ پی آئی اے نے ضرور ترقی کی ہوگی، اور کچھ نہیں تو کم از کم پرواز کے دوران عملے کی اخلاقی تربیت اور ترقی تو ہو ہی چکی ہوگی!بحرحال 2گھنٹے کی تاخیر کے بعد مزید تاخیر نہیں ہوئی، بورڈنگ ٹائم سے آدھا گھنٹہ پہلے ڈیپارچر گیٹ پر آیا تو شلوار قمیض میں ملبوث پاکستانی بھائیوں اور بہنوں کو دیکھا تو آنکھوں کو جیسی ٹھنڈک مل گئی ہو، ایسے لگا جیسے میں پشاور پہنچ گیا ہوں۔تھوڑی دیر بعد بورڈنگ شروع ہوگئی، بورڈنگ کے دوران دیکھا تو بہت بڑا جہاز تھا یعنی 777، مسافر بھی بہت زیادہ تھے، جونہی جہاز میں داخل ہوا تو جہاز باہر جتنا بڑا اور اچھا لگا رہا تھا اس کے برعکس اندر سے بہت ہی بوسیدہ دکھائی دے رہا تھا، میں جونہی اپنی سیٹ کی طرف بڑھا تو دیکھا کہ میری سیٹ پر ایک خاتون بیٹھی ہوئی ہیں، میں کھڑا سوچتا رہا کہ اب کیا کروں؟ اتنے میں جہاز کے عملے میں ایک بزرگ آدمی آیا جس نے میرے بورڈنگ کارڈ پر سیٹ نمبر دیکھا اور مجھے کسی اور کی سیٹ پر بیٹھنے کیلئے کہا، ان کا کہنا تھا کہ یہ خاتون اور اس کی پوری فیملی ایک ساتھ بیٹھنا چاہتی ہے لہٰذا اس لیے جہاز کا عملہ سیٹ نمبرز کو آگے پیچھا کرے گا، میں دوسری سیٹ پر بیٹھ گیا، پورے جہاز میں بہت زیادہ شور تھا اور گرمی بھی، جہاز کے اندر کا اے سی ابھی بند تھا، سیٹ پر بیٹھنے کے بعد معلوم ہوا کہ سیٹ نہایت غیر آرام دہ تھی، ٹی وی سکرین کام نہیں کر رہی تھی، ریموٹ کنٹرول تو بالکل ہی کنڑول میں نہیں تھا،  اسی دوران جہاز اُڑا اور اس کے باوجود بھی گرمی کا احساس ہو رہا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے جہاز کا اے بدستور چالو نہیں تھا یا پھر اس قدر کمزور تھا کہ جہاز کے اندر کا درجہ حرار ت برقرار رکھنے میں کارگر نہیں تھا۔یہ سب کچھ دیکھ بہت افسوس ہو رہا تھا کہ پوری دُنیا کی ائیرلائن ایک دوسرے ساتھ مقابلہ کرنے میں لگی ہوئی ہیں اور مسافروں کو بہتر سے بہترین سفری سہولیات دینے کی کوششوں میں ہیں لیکن ہماری قومی ائیرلائن ہر گزرتے لمحے کے ساتھ پستی اور زوال کی جانب رواں ہے۔ سویڈن سے پاکستان تک دو مختلف ممالک کے ائیرلائن استعمال کرنے کا موقع ملا لیکن دونوں میں جیسے زمین اور آسمان کا فرق تھا۔ موجودہ حکومت اداروں میں اصلاحات کے جس ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اس کے تحت قومی ائر لائن جو باہر کی دنیا میں ملک کا چہرہ ہوتاہے کو بھی شایان شان بنائے اور خلوص نیت و عزم ہوتو کوئی کام مشکل نہیں۔