پی پی اور پی ایم این کی حالیہ قربت

اپوزیشن کی دوبڑی جماعتیں یعنی پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن موجودہ حکومت کے خلاف  ایک مرتبہ پھر ایک دوسرے کے قریب ہونے لگی ہیں۔ گزشتہ دنوں دونوں جماعتوں کے قائدین کے درمیان ملاقات ہوئی ہے، جس کے بعد ایک مرتبہ  پھر عمران خان کی حکومت کو گھر بھیجنے کے بلند و بانگ دعوے کیے جانے لگے ہیں۔واضح رہے کہ دونوں جماعتوں کی سیاسی قربتوں کی کہانی کچھ زیادہ پرانی نہیں ہے، اس کہانی کی شروعات  2018کے عام انتخابات میں تحریکِ انصاف کی کامیابی اور پی ایم ایل ن اور پیپلز پارٹی کی ناکامی کے بعد اس وقت ہوئیں جب عمران خان نے وزیرِ اعظم کا حلف اٹھایا۔دونوں جماعتوں کے درمیان حالیہ قربت ایک تیز ترین سیاسی یوٹرن کچھ اس طرح ہے کہ ابھی چند ہی روز قبل حکومت نے سینیٹ میں اقلیتی جماعت ہونے کے باوجود سٹیٹ بنک کی خود مختاری کے حوالے سے کی جانے والی قانون سازی کا بل پاس کرایا، اس بل کے پاس ہونے کے بعد مسلم لیگ ن کی جانب سے پیپلز پارٹی پر الزامات اس لیے عائد کیے گئے ایوان میں یوسف رضا گیلانی کی عدم شرکت کی وجہ سے حکومت کو کامیابی ملی۔ اس دوران جہاں دونوں جماعتوں کے درمیان تلخی بڑھنے لگی تھی وہاں ایک دم دونوں جماعتوں کے درمیان بظاہر ایک اہم بیٹھک ہوئی، جس کے بعد ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جار ہی کہ موجود حکومت آج گئی یا کل گئی، اور یوں ایک مرتبہ پھر ایک ہنگامے پے موقوف ہوگئی پاکستان کی سیاسی رونق۔بہرحال سال 2018کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے اور حکومت کی بھاگ دوڑ سنبھالنے کے ساتھ ہی اپوزیشن کی چھوٹی بڑی تمام جماعتوں کی جانب سے عمران خان کو گھر بھیجنے کی تگ و دو شروع ہوئی، اس تگ و دو کو سیاسی وزن دینے کیلئے پی ڈی ایم کے نام سے ایک سیاسی اتحاد بنایا گیاجس کے سائے تلے موجودہ حکومت کا خاتمہ کرنا تھا۔ اس تحریک میں جان ڈالنے کی کوشش اُس وقت کی گئی جب مولانا فضل الرحمن نے حکومت کے خلاف لانگ مارچ کرنے کا فیصلہ کیا۔ مولانا کے مارچ کو اپوزیشن کی دیگر جماعتوں نے بھی سپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا، مولانا کا مارچ اکتوبر 2019 کے آخر میں شروع ہوا، اور دھرنے میں تبدیل ہونے کے بعد 13نومبر 2019کواختتام پذیر ہوا تھا دوسری جانب پی ڈی ایم اتحاد میں شامل جماعتوں  میں آپس کے سیاسی اختلافات ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے، یہی وجہ تھی کہ اے این پی اور پیپلز پارٹی کو پی ڈی ایم سے علیحدہ ہونا پڑا تھا۔اپوزیشن جبب تک متحد تھی تو حکومت پر کسی حد تک دباؤ تو رہا تھا اور یہ دباؤ اس وقت حکومتی پریشانی کو زوردار تقویت دینے کیلئے مکمل طور پر تیار ہو چکا تھا جب گزشتہ سال یعنی مارچ 2021میں اپوزیشن نے کمال کی ہوشیاری دکھاتے ہوئے سینیٹ انتخابات میں حکمران جماعت کو اس وقت کے وزیرِ خزانہ حفیظ شیخ کی سیٹ پر اپ سیٹ شکست سے دوچار کیا تھا جس سے کچھ لمحوں کیلئے یہ تاثر دیا جانے لگا تھا کہ وزیراعظم ایوان کا اعتماد کھو بیٹھے ہیں لہٰذا،  انہیں مستعفی ہو جانا چاہئے،  بلاشبہ یہ صورتحال حکومت کیلئے نہایت ہی تشویش ناک تھی، یہ تاثر ابھی الیکٹرانک میڈیا پر شروع ہی ہوا تھا کہ وزیرِاعظم کی جانب سے رضاکارانہ طور ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان سامنے آیا، یہ اعلان بلاشبہ جہاں سیاسی طور پر نہایت بہادرانہ قدم تھا وہاں سیاسی خودکشی کے بھی مترادف تھا کیونکہ اس کے نتائج منفی بھی آسکتے تھے لیکن عمران خان نے پاکستان کی سیاست میں ایک نئی روایت کا آغاز کیا کہ حکمران کو اخلاقی برتری کے ساتھ ہی ایوان میں بیٹھنا چاہئے۔ عمران خان کے اس فیصلے کے بعد بھی چہ می گوئیاں جاری رہیں لیکن توقع کے عین مطابق عمران خان نے ایک مرتبہ پھر ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا جس کے بعد حکومت کی پوزیشن پہلے سے زیادہ مستحکم ہوئی۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی جانب سے حکومت مخالف حتمی لائحہ عمل کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے یہ تو آنے والے چند ہفتے ہی بتا دیں گے لیکن دونوں جماعتوں کا ٹریک ریکارڈ یہی بتاتا ہے کہ ان کی قربت زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکے گی، لیکن ایک مفروضے کے طور پر ایک لمحے کیلئے مان لیا جائے کہ پی پی پی اور پی ایم ایل این باقی اپوزیشن جماعتوں کو ایک مرتبہ پھر حکومت کے خلاف حتمی معرکے کیلئے تیار کردیتی ہیں تو بھی سب سے پہلے انہیں حکومتی اتحاد کو توڑنا ہوگا جس میں مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم اہم ترین ہیں، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلم لیگ ق  یا ایم کیو ایم حکومتی اتحاد چھوڑ کر اپوزیشن کے کیمپ میں جانے کو ترجیح دے گی؟ اور اگر دے گی تو کیوں کر؟ چونکہ بات مفروضے کی بنیاد پر ہو رہی ہے تو چلیں مان لیتے ہیں کہ اپوزیشن پیالی میں طوفان برپا کرتے ہوئے حکومتی اتحاد کی مذکورہ دونوں جماعتوں کو اپنے ساتھ ملا لیتی ہے اور حکومت کا خاتمہ ہوجاتا ہے تو اُس صورت میں اپوزیشن کس پارٹی سے نیا وزیرِ اعظم لائے گی جو ان سب کو قابلِ قبول ہو گا؟  لیکن خیر چونکہ ”ایک ہنگامے پے موقوف ہے گھر کی رونق “ تو اپنے مفروضے کو آگے بڑھاتے ہیں جس کے مطابق اپوزیشن حکومت کو فارغ کرنے کامیاب ہوجاتی ہے اور اپنا کوئی وزیرِ اعظم بھی لے آتی ہے، اس صورت میں کیا ایسی کوئی حکومت عمران خان کو ایک اپوزیشن لیڈر کے طور سنبھال سکے گی جس نے 2013سے 2018تک نواز شریف حکومت کو ایسے پریشان کیے رکھا تھا کہ جس کی ماضی کوئی مثال نہیں ملتی؟ اسی طرح کیا موجودہ صورتحال میں جہاں پوری دُنیا میں مہنگائی کا ایک طوفان برپا ہے جس کی جھلک پاکستان میں بھی عیاں ہے کو کوئی بھی آنے والی نئی حکومت قابو کر سکے گی؟ یعنی موجودہ حالات میں حکومت کا خاتمہ اور اس کی جگہ اپوزیشن کی طرف سے حکومت سنبھالنے کے امکانات وہ معمہ ہے جس کا حل ہونا مشکل نظر آرہا ہے یعنی حکومت کے جانے کے بعد بھی مسائل حل نہیں ہوں گے اور ظاہر ہے کہ ایسے میں اپوزیشن کی طرف سے حکومت سنبھالنے کے بعد یقینا وہ مشکل ہی میں پڑ جائیں گے اور آنے والے انتخابات کے لئے جو مہم اس وقت وہ کامیابی سے چلا رہے ہیں اس میں مشکلات حائل ہو سکتی ہیں یعنی انہوں نے عوام کے دل میں جو جگہ بنائی ہے اسے بنائے رکھنا اس صورت میں بہت مشکل ہو جائے گا کہ اگر انہوں نے مہنگائی کے اس دور میں حکومت سنبھال لی اور وہ بھی محض ایک سال کے لئے۔ اس تمام بحث کے نتیجے میں یہ کہنا مشکل نہیں کہ نہ حکومت کہیں جا رہی ہے اور نہ ہی حزب اختلاف حکومت سنبھالنے میں دلچسپی رکھتی ہے بلکہ یہ آنے والے الیکشن کے لئے مہم کا حصہ ہے اور یہ تمام سرگرمیاں جو حز ب اختلاف نے شروع کر رکھی ہے حکومت گرانے کے لئے نہیں ہیں۔