سائیکل ترقیافتہ ممالک کا شوق

دنیا کے بیشتر ترقیافتہ ممالک میں سائیکل ایک موثر ذریعہ آمدورفت ہے کروڑوں لوگ روزانہ سکول‘ کالج‘ یونیورسٹی دفتر‘ دکان‘ بازار جانے کیلئے سائیکل استعمال کرتے ہیں ان ممالک میں سائیکل کے استعمال کی حوصلہ افزائی کیلئے خوبصورت اور آرام دہ سائیکل ٹریک‘ پارکنگ کیلئے جگہ بنائی گئی ہیں نہ صرف عام لوگ بلکہ وزراء ارکان پارلیمنٹ‘ سیاسی رہنما افسران اور ہر مرد عورت ایک جگہ سے دوسری جگہ آمدورفت کیلئے سائیکل استعمال کرتے ہیں ہالینڈ جہاں سائیکل استعمال کرنے والوں کی شرح سب سے زیادہ ہے وہاں کے وزیراعظم اکثر  دفتر آنے جانے کیلئے سائیکل استعمال کرتے ہیں برطانیہ کے وزیراعظم بھی بارہا بازار اور عوامی مقامات پر سائیکل استعمال کرتے دیکھے گئے ہیں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان ممالک میں لوگوں کے ذہن میں یہ احساس کمتری نہیں کہ انہیں دوسروں سے برترنظر آنے کیلئے بڑی اور بیش قیمت گاڑیوں کے قافلے میں سفرکرنا چاہئے۔
ان ممالک میں امراء اور کاروباری افراد بھی سائیکل کے استعمال کو ترجیح دیتے ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک تو سائیکل ماحول دوست ذریعہ سفر ہے نہ دھواں دیتی ہے نہ شور کرتی ہے اسکے علاوہ کسی کی جیب پر اسکے ذریعے سفر کا بوجھ نہیں پڑتا البتہ ان دونوں وجوہات سے بڑی وجہ جس کی وجہ سے کروڑوں لوگ روزانہ سائیکل کا استعمال کرتے ہیں وہ اسکے ذریعے ورزش کی عادت ہے ان لوگوں کے پاس جم جانے‘ دوڑنے یا واک کرنے کا وقت نہیں ہوتا تو دفتر جائے اور آتے سائیکل کے ذریعے ان کی ورزش بھی ہو جاتی ہے اور ماحول دوست انداز میں گھر سے دفتر یاکالج کا سفر بھی ہو جاتا ہے ہمارے ہاں گزشتہ10‘20سالوں کے دوران کاروں اور موٹر سائیکلوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے شہروں کی سڑکیں روزانہ بند رہتی ہیں گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں تو کئی گناہ بڑھ گئی ہیں مگر سڑکیں وہی کی وہی ہیں شہر میں گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران ایک رنگ روڈ کے علاوہ کسی سڑک کا اضافہ نہیں ہوا لوگوں کی پیدل چلنے‘ سائیکل استعمال کرنے اور صحت بنانے کی عادت بھول گئی ہے۔
 کچھ پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگ جو سائیکل استعمال کرتے ہیں لوگ ان کا مذاق اڑاتے ہیں اور انہیں مجبور کرتے ہیں کہ وہ بھی سائیکل کی جان چھوڑ کر موٹر سائیکل یا کار خریدلیں موجودہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی صورتحال کا اگر جائزہ لیا جائے تو اگر ہمارے ہاں بھی بڑی تعداد میں لوگ سائیکل استعمال کرتے یا پیدل چلتے تو قیمتوں میں اضافے کا ان کی زندگی پر کوئی اثر نہ پڑتا اب بھی یہ موجودہ صورتحال بڑی تعداد میں لوگوں کو سائیکل استعمال کی طرف راغب کر سکتی ہے ہم میں سے ہر ایک کو نہ صرف خود پیدل چلنے اور سائیکل استعمال کرنے کی عادت ڈالنی اور گاڑی اور موٹر سائیکل کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے بلکہ اپنے بچوں اور چھوٹوں کو بھی سائیکل استعمال کرنے اور پیدل چلنے کی طرف راغب کرنا چاہئے یہ بلاشبہ عقلمندی کی بات ہے اور یہی وجہ ہے کہ پڑھے لکھے اور ترقیافتہ ممالک میں سائیکلوں کی تعداد اور استعمال ہم سے کہیں زیادہ ہے۔
 ہم بہت سی تاویلیں دیتے ہیں کہ یہاں آلودگی ہے گرمی ہے مگر اچھی عادت کو ہر صورت میں اپنانا ہے ماحول خود بخود بہتر ہوگا ہم ترقیافتہ ممالک کی طرف دیکھیں تو چین میں روزانہ تقریباً 50 کروڑ لوگ سائیکل پر سفر کرتے ہیں جاپان کی سوا کروڑ آبادی کے پاس70لاکھ سائیکلیں ہیں سویڈن میں 60فیصد‘ جرمنی میں 75فیصد‘ ناروے60فیصد  جبکہ بلجیم میں 40فیصد لوگ سائیکل استعمال کرتے ہیں کوپن ہیگن اور ایمسٹرڈیم کو دنیا کے سب سے زیادہ سائیکل دوست شہر قرار دیا جاتا ہے ہالینڈ میں روزانہ 27فیصد سفر سائیکل کے ذریعہ کیا جاتا ہے اور اسکی وجہ یہ ہے کہ اس ملک کے وزیراعظم وزراء افسر شاہی خود اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور بڑی گاڑیوں اور پروٹوکول پر سائیکل کو ترجیح دیتے ہیں۔