سیاسی عدم برداشت

2012ء کی ایک دوپہر آسٹریلیا کی وزیراعظم جولیا گیلارڈ مقامی رضاکاروں کو ایوارڈ دینے کے لئے کینبرا کے ایک ریسٹورنٹ میں موجود تھیں اپوزیشن لیڈر ٹونی الیبٹ بھی تقریب کے شرکاء میں موجود تھے اس دوران اچانک مظاہرین کا ایک ٹولہ برآمد ہوا جو حکومت کے خلاف نعرے لگا رہا تھا۔ مظاہرین نے ریسٹورنٹ کے شیشے توڑ ڈالے۔ صورتحال قابو سے باہر ہو رہی تھی تو سکیورٹی اہلکاروں نے وزیراعظم کو فوری طور پر نکلنے کی تجویز دی۔ سکیورٹی اہلکار جولیا گیلارڈ کے ارد گرد کھڑے ہو رہے تھے کہ وزیراعظم نے اپوزیشن لیڈر کے بارے میں استفسار کیا۔ سکیورٹی اہلکاروں کو ہدایت کی کہ ان سے پہلے اپوزیشن رہنما کو بخیریت نکالا جائے۔ سکیورٹی اہلکاروں نے انہیں یقین دلایا کہ دیگر اہلکار حزب اختلاف کے رہنما کو محفوظ بنا چکے ہیں اور پھر وزیراعظم کو بازو سے پکڑ کر فوراً گاڑی کی طرف کھینچا جو مظاہرین کے دوسری طرف تیار کھڑی تھی ا۔س افراتفری میں وزیراعظم کا جوتا بھی رہ گیا۔ بہرحال وزیراعظم اور حزب اختلاف کے رہنما دونوں کو بغیر کسی تکلیف کے محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا۔ 

کہنے کامقصد یہ ہے کہ دنیا بھر ملک میں برسر اقتدار جماعت کو حزب اختلاف کا سامنا ہوتا ہے مگر باوقار ممالک کے باوقار سیاستدان اور کارکن ایک دوسرے کے لئے عزت اور احترام کا جذبہ رکھتے ہیں ان کا سیاسی اختلاف چلتا رہتا ہے مخالفین پر بدعنوانی‘ نا اہلی کے الزامات بھی عائد کئے جاتے ہیں عدم اعتماد بھی ہوتے ہیں مگر سب کچھ عزت اور احترام کے دائرے میں اور اصولی ہوتا ہے۔ اس وجہ سے ایک دوسرے کی پگڑیاں نہیں اچھالی جاتی۔ ایوانوں اور محافل میں ایک دوسرے سے اختلاف رائے کا اظہار کیا جاتا ہے ایسا بھی نہیں کہ کبھی تلخی نہیں ہوتی۔ کئی بار ترقیافتہ اور مہذب ممالک کے ایوانوں میں بھی لڑائیاں ہو ئی ہیں، مخالفین کو جیلوں میں بھی بند کیا گیا ہے مگر اس کی مثالیں بہت کم ہیں جبکہ رواداری‘ برداشت‘ عزت و احترام کی مثالیں کہیں زیادہ ہیں۔ جن ممالک میں رکھ ر کھاؤ اور ادب آداب سیاست کا حصہ ہیں وہاں ترقی کی رفتار بھی دوسرے ممالک سے تیز ہے وہاں لوگوں میں پریشانی کی شرح بہت کم ہے لوگ خوش رہتے ہیں۔

ایک دوسرے کی عزت کرتے ہیں ملک کے معاملات چلتے رہتے ہیں۔عوامی مسائل کے حل کے لئے فوری اور دیر پا اقدامات اٹھائے جاتے ہیں بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایک عرصہ سے سیاسی عدم برداشت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ ہر گھر تقسیم ہو چکا ہے ہر محفل میں لوگ اپنی جماعت سے وفاداری اس صورت میں ثابت کرتے ہیں کہ مخالف جماعت کے رہنماؤں اور کارکنوں کی زیادہ سے زیادہ کردار کشی کریں۔ لوگ اپنے رہنما کے علاوہ باقی سب بدعنوان اور چور تصور کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہم اس دوران یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ہم مخالفین کے خلاف اور اپنے رہنماؤں کے حق میں جو کہہ رہے ہیں سچ بھی یا نہیں۔

کیا ہم مخالفین کے خلاف گمراہ کن اور غلط پراپیگنڈہ تو نہیں کر رہے۔ اختلاف رائے اور اپنے رہنماؤں اور جماعت کو اچھا ثابت کرنا ہر کسی کا حق ہے مگر دوسروں کو گالیاں دینا ان پر تہمت لگانا‘ بدزبانی جھگڑے یہ سب آداب کے خلاف ہیں اگر ہم اور ہماری جو بھی جماعت ہے وہ سچے اور اچھے ہیں تو ان کا دفاع ہمارا حق ہے مگر دوسرے پر تنقید کرتے وقت جھوٹ کا سہارا لینا‘ بدزبانی کرنا کسی کی توہین کرنا صرف یہ ثابت کرتا ہے کہ ہماری تربیت میں کمی رہ گئی ہے۔اس حوالے سے ہم میں سے ہر فرد کو سوچنا ہوگا کیونکہ معاشرہ ہم میں سے ہی بنتا ہے۔