ہر سال4 اگست کو یوم شہدائے پولیس کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن2010 کواس وقت کے کمانڈنٹ فرنٹیئر کانسٹیبلری صفوت غیور کو اس وقت ایک خود کش حملے میں شہید کیا گیا جب وہ پشاور صدر میں ایف سی ہیڈ کوارٹرز سے بغیر کسی پروٹوکول کے نکل کر گاڑی میں ٹریفک سگنل کھلنے کا انتظار کر رہے تھے‘ صفوت غیور ایک عام پولیس والا نہیں تھا اس کی بہادری‘ جذبے اور فرض شناسی کی بے شمار داستانیں ہر افسر سناتاہے جس نے اس کے ساتھ کام کیا ہے 4 اگست کو نہ صرف صفوت غیور بلکہ ان1849 پولیس اہلکاروں اور افسران کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے جنہوں نے 1970ء سے آج تک فرائض کی انجام دہی کے دوران جان کا نذرانہ پیش کیا، دیکھا جائے تو 1970ء سے 2006 تک 36 سال کے دوارن مختلف واقعات میں 389 پولیس اہلکار اور افسران شہید ہوئے2007 میں اس وقت کے کیپٹل سٹی پولیس افسر ملک محمد سعد دیگر پولیس افسران‘ عوامی نمائندوں اورعوام کی ایک بڑی تعدادکے ہمراہ قصہ خوانی کے قریب ایک گلی میں اس وقت شہید ہوئے جب سکیورٹی کی نگرانی کے دوران ایک خودکش حملہ آور نے انہیں نشانہ بنایا اس کے بعد پولیس پر حملوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا، اگرچہ2014ء کے بعد سے پولیس پر حملوں میں کافی کمی آئی تھی اور گزشتہ سال کے وسط تک صورتحال کافی حوصلہ افزا تھی تاہم گزشتہ سال کے آخری مہینوں کے دورن ایک بار پھر ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع ہوا جس میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا۔
2007ء سے آج تک کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس دوران1480سے زائدپولیس اہلکار اور جوانوں نے جان کا نذرانہ پیش کیا ان میں سب سے زیادہ تعداد سپاہوں کی ہے‘ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 15 سال کے دوران مختلف نوعیت کے حملوں میں 1072 کانسٹیبل شہید ہوئے۔ دیگر شہید ہونے والوں میں 155 ہیڈ کانسٹیبل،88اسسٹنٹ سب انسپکٹر،109 سب انسپکٹر اور32 انسپکٹر شامل ہیں، افسران میں گزشتہ15سال کے دورن جو شہید ہوئے ان میں 15 قائم مقام ایس پیز اور ڈی ایس پیز‘6 ایس پیز‘ ایک ڈی آئی جی اور دو ایڈیشنل آئی جی پی شامل ہیں‘ شہیداء میں سینئرترین افسران میں سابق کمانڈنٹ ایف سی صفوت غیور کے علاوہ ایڈیشنل آئی جی اشرف نور‘ کیپٹل سٹی پولیس افسر ملک محمد سعد شامل ہیں ڈی آئی جی عابد علی بھی سینئر افسران میں شامل ہیں جن کو 2006 میں متنی میں نشانہ بنایا گیا‘ سال2009 اور2010 میں پولیس پر سب سے زیادہ حملے ہوئے جن میں کئی افسران اور اہلکار شہید ہوئے2009ء میں 209 پولیس اہلکاروں نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا جن میں ایک ایس پی‘ 3 ڈی ایس پی اور4 انسپکٹر بھی شامل ہیں۔
پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق2006 میں کل27 پولیس اہلکار شہید ہوئے جن کی تعداد2007 میں 107 تک پہنچ گئی‘ جبکہ2008 میں تعداد177‘2009 میں 209‘2010 میں 107‘2011 میں 154‘2012 میں 106‘2013 میں 134 اور2014 میں پولیس شہداء کی تعداد111 تک پہنچ گئی‘ صرف2012 میں پشاور میں تین ایس پی کالام خان‘ خورشید خان اور ہلال حیدر شہید کئے گئے۔2015 کے بعد سے حملوں میں بتدریج کمی آتی گئی2015ء کے دوران61 اور2016 میں 74 پولیس اہلکار شہید ہوئے 2017 میں شہداء کی تعداد36‘2018 میں 30 اور2019 میں 38‘2020 میں 28‘2021 میں 59 رہی اس سال گزشتہ ہفتے تک65 پولیس اہلکار مختلف حملوں خصوصاً ٹارگٹ کلنگ میں نشانہ بن چکے ہیں۔خیبر پختونخوا پولیس ہر سال کی طرح اس سال بھی ان تمام شہداء کو خراج عقیدت پیش کر ہی ہے ان کے خاندان اور بچوں کے لئے تقریبات منعقد کئے جا رہے ہیں تاہم اس کے ساتھ ایسیاقدامات ضروری ہیں کہ ان حملوں کی تعداد فوری طور پر کم ہو امن وامان کی صورتحال بہتر ہو اور عام آدمی اور پولیس اہلکار کی زندگی محفوظ رہے۔