عمران خان کی جانب سے خاتون جج کو دھمکیاں دینے سے متعلق توہین عدالت کیس میں چیف جسٹس اسلام ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اظہار رائےکی آزادی کے محافظ ہیں لیکن اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دے سکتے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کو توہین عدالت کیس میں معافی کا موقع دیا لیکن عمران خان نے ایک بار پھر غیر مشروط معافی مانگنے سے گریز کرتے ہوئے دھمکی دینے کے اپنے الفاظ پر پچھتاوے کا اظہار کیا۔
عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا 5 رکنی بینچ کر رہا ہے، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان، ان کے وکیل حامد خان اور دیگر وکلا عدالت میں موجود ہیں۔
عمران خان کے وکیل حامد خان نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ گزشتہ سماعت کی عدالتی آبزرویشن سے مکمل اتفاق کرتا ہوں، عدالت کے سامنے مختصر گزارشات رکھنا چاہتا ہوں، ہم یہ معاملہ ختم کرنا چاہتے ہیں، عدالت نے ایک اور موقع دیا جس پر تفصیلی جواب داخل کرا دیا ہے، 21 اگست کی عدالتی آبزرویشن پر تفصیلی جواب داخل کیا۔
حامد خان کا کہنا تھا عدالت نے سپریم کورٹ کے دو فیصلوں کا حوالہ دیا، یہ دانیال عزیز اور طلال چوہدری کے عدالتی فیصلے تھے لیکن عمران خان کا کیس ان دو عدالتی فیصلوں کے تحت نہیں آتا، طلال چوہدری اور دانیال عزیز کیسز عمران خان کیس سے بہت مختلف ہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ توہین عدالت تین طرح کی ہوتی ہے جسے فردوس عاشق اعوان کیس میں بیان کیا گیا، ایک جوڈیشل توہین عدالت اور ایک فوجداری توہین عدالت، دانیال عزیز اور طلال چوہدری کے خلاف کرمنل توہین عدالت کی کارروائی نہیں تھی، ان کے خلاف عدالت کو اسکینڈلائز کرنے کا معاملہ تھا، ان تین عدالتی فیصلوں کا حوالہ دینے کا مقصد تھا، ایک سول توہین عدالت ہے۔
ان کا کہنا تھا عدالت کی اسیکنڈلائزیشن فردوس عاشق اعوان سے متعلق ہے، یہ کرمنل توہین عدالت ہے جو زیر التوا مقدمے سے متعلق ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کا جواب تفصیلی پڑھا، فیصلے میں حوالہ توہین عدالت کی اقسام میں فرق سے متعلق دیا گیا، سپریم کورٹ کے فیصلے پر ہم پابند ہیں، سپریم کورٹ کے 7 رکنی بینچ کا مسرور احسن بنام اردشیر کاوس جی کیس دیکھیں، مسرور احسن بنام اردشیر کاوس جی کیس کا پیرا گراف نمبر 96 پڑھیں۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ ہم یہ معاملہ کلوز کرنا چاہتے ہیں، ہم نے نہایت احترام کے ساتھ گزارشات پیش کر دی ہیں، عدالت نے ایک اور موقع دیا جس پر تفصیلی جواب داخل کرا دیا ہے۔
اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کرمنل توہین بہت حساس معاملہ ہوتا ہے، کرمنل توہین میں آپ کوئی توجیہ پیش نہیں کرسکتے، ہم اظہار رائے کی آزادی کے محافظ ہیں لیکن اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دی جاسکتی، کریمنل contempt میں آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میرا یہ مقصد تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کوئی کسی جج کے فیصلے سے متاثرہ بھی ہے تو اس کا ایک پراسس ہے، حامد خان صاحب! آپ کو پچھلی بار بھی کہا تھا کہ ڈسٹرکٹ جوڈیشری ہمارے لیے ریڈ لائن ہے، یہ بتا دیں کہ آپ نے جواب میں justify کرنے کی کوشش کی ہے؟ جس پر وکیل حامد خان نے کہا کہ ہم نے justify نہیں کیا بلکہ وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے۔
عمران خان کی پیشی کے موقع پر آج کی سماعت کے لیے سیکیورٹی کے غیر معمولی اقدامات کیے گئے، کمرہ عدالت میں وکلا سمیت کورٹ رپورٹرز کا داخلہ رجسٹرار آفس کے پاسز سے مشروط ہے۔
چیف جسٹس نے رجسٹرار ہائیکورٹ، ڈپٹی کمشنر اور آئی جی پولیس کو فوری ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا کہ یقینی بنائیں کہ سیکیورٹی انتظامات کے دوران عوام کے لیے مزید مشکلات پیدا نہ ہوں، ہائیکورٹ کی اطراف میں کاروباری مراکز کو بند نہ کیا جائے۔
دریں اثنا شوکاز نوٹس ملنے پر عمران خان نے گزشتہ روز دوسرا تحریری جواب جمع کرادیا تھا جس میں عمران خان نے جج سے متعلق کہے الفاظ پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ غیر ارادی طور پر منہ سے نکلے الفاظ پر گہرا افسوس ہے۔
عمران خان کے ساتھ پی ٹی آئی کے دیگر رہنما بھی موجود تھے جنہیں کمرہ عدالت میں جانے سے روک دیا گیا۔ رہنما مراد سعید نے میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ ہم ہائی کورٹ نہیں جا رہے بس اپنے لیڈر کو سپورٹ کرنے آئے ہیں، انہوں نے ادھر کرفیو لگایا ہوا ہے، ہماری اوپر امپورٹد حکومت مسلط ہے۔
مراد سعید نے کہا کہ حکومت نے پی ٹی آئی قیادت پر ایف آئی آرز درج کروا دیں، صحافیوں کو چپ کروا دیا، یوٹیوب بند کرادی، میڈیا کا بلیک آؤٹ کرکے آپ اپنا مذاق بنارہے ہیں، ہم جب بھی پولیس سے سوال کرتے ہیں یہ کہتے ہیں ہمیں اوپر سے آرڈر آیا ہے اور اسی طرح میڈیا والے بھی یہی کہتے ہیں۔