اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف نے ڈالرز کی ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کیخلاف کاروائی کا فیصلہ کرلیا ہے،وزیراعظم شہبازشریف نے وزیرخزانہ کو ہدایت کی کہ انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے فرق کو کم کیا جائے۔معاشی صورتحال کی بہتری کے حقائق کو قوم کے سامنے لایا جائے۔
نجی ٹی وی کے مطابق وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف کی زیرصدارت معاشی ٹیم کا اجلاس ہوا، اجلاس میں ملک کی موجودہ معاشی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ وزیراعظم کو بریفنگ دی گئی کہ ملک کسی بھی طرح سے ڈیفالٹ نہیں کررہا۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ڈالرز کی ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کیخلاف کاروائی کی جائے گی۔ وزیراعظم نے انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے فرق کو کم کرنے کی ہدایت کردی ہے۔
وزیراعظم شہبازشریف نے کہا کہ پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کی افواہیں گمراہ کن ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف نے وزارت خزانہ کو ہدایت کی کہ معیشت سے متعلق حقائق کو قوم کے سامنے لایا جائے۔وزیرخزانہ اسحاق ڈار معیشت پر بیک گراؤنڈ بریفنگ دیں گے۔
مزید برآں وفاقی کابینہ نے ریکوڈک منصوبے کی حتمی ڈیل پر دستخط کرنے کی باضابطہ منظوری دیتے ہوئے بعض قانونی رکاوٹیں دور کرنے کیلئے 5 رکنی کابینہ کی کمیٹی تشکیل دیدی۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ حکومت عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ موجودہ پروگرام پورا کرے گی، برآمدات میں اضافے کے لئے ایکسپورٹرز کی بھرپور مدد کریں گے اور تمام ممکنہ سہولیات فراہم کی جائیں گی،موجودہ حکومت کو تباہ حال اور بدحال معیشت ملی تھی جسے ہم نے دن رات کی محنت سے استحکام دیا ہے۔
اجلاس میں خزانہ، اقتصادی امور ڈویڑن، منصوبہ بندی، دفاع کے وفاقی وزرا کے علاوہ گورنرسٹیٹ بینک، حبیب بینک، الفلاح بینک کے صدور اور دیگر اعلی حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں ملک کی معاشی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
آئی ایم ایف کے نویں جائزے سے متعلق غور کیاگیا جبکہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر قابو پانے کے لئے مختلف اقدامات زیربحث آئے۔ وزیراعظم نے آئی ایم ایف پروگرام مکمل کرنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے تمام متعلقہ حکام کو مالیاتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر قابو پانے کے لئے ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت کی۔ انہوں نے کہاکہ اس سلسلے میں ضروری پالیسی اور انتظامی اصلاحات پر توجہ مرکوز رکھیں گے۔
وزیراعظم نے ہدایت کی کہ برآمد کنندگان کو ہر ممکنہ سہولیات فراہم کی جائیں۔ بندرگاہوں پر ضروری سہولیات، نئی مارکیٹس کی نشاندہی کے علاوہ خام مال اور مشینری کی درآمد میں مدد فراہم کی جائے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اس آئی ٹی برآمد کا حجم 2 ارب ڈالر ہے جسے اینٹرپرینور اور نیا کاروبار شروع کرنے والوں کی مدد کرکے اور سہولیات کی فراہمی سے باآسانی 5 ارب ڈالر تک بڑھایاجاسکتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ سہولیات کی فراہمی سے بیرون ملک پاکستانیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ وہ بینکنگ چینلز سے اپنی رقوم وطن عزیز کو ارسال کریں۔ وزیراعطم نے ہدایت کی کہ توانائی کے شعبے میں پوری توجہ اور تندہی کے ساتھ اصلاحات پرعمل کیاجائے۔ گردشی قرض میں کمی اولین ترجیح ہے۔
بجلی کی پیداوار میں اضافے کے ساتھ ساتھ ہمیں گردشی قرض سے بھی نمٹنا ہے۔ ہمیں توانائی کی مقامی سطح پر پیداوار اور اضافے کے لئے کوششیں کرنا ہوں گی تاکہ درآمدی ایندھن پر بتدریج انحصار ختم ہوسکے۔ انہوں نے کہ مہنگے درآمدی ایندھن کی وجہ سے عام عوام پر بوجھ پڑتا ہے۔ ہمیں اپنے عوام کو ان تکالیف سے نجات دلانا ہے۔
وزیراعظم نے ہدایت کی کہ توانائی کی بچت کے لئے عمومی رویوں کو بہتر بنانے کے لئے بھی مہم شروع کی جائے۔ عوام کو آگاہ کرنا ہے کہ توانائی کی بچت کرنا اس وقت قومی ضرورت ہے۔
اجلاس نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ چار سال کے دوران پاکستان کی معیشت شدید ترین بدنظمی، تباہی وبربادی سے دوچار رہی۔ حالانکہ جب سابق حکومت نے اقتدار سنبھالا تھا تو 2018 میں جی ڈی پی کی شرح 6.1 فیصد تھی لیکن معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے بجائے بدترین گورننس اور معاشی بدانتظامی نے اکانومی کو جمود کا شکار کردیا۔
اجلاس نے قرار دیا کہ 2018 میں عوامی قرض 25 ٹریلین روپے تھا جو مارچ 2022 تک42مہینوں میں بڑھ کر 44.5 ٹریلین تک پہنچ گیا۔ اسی طرح دیگر معاشی اشاریے بھی موجودہ حکومت کو انتہائی بری حالت میں ملے۔ موجودہ حکومت نے انتہائی مشکل حالات میں صورتحال کو سنبھالا دیا اور ملک کو معاشی استحکام دیا۔
اجلاس نے قرار دیا کہ سیلاب کی صورتحال کی وجہ سے پاکستان کی معاشی بحالی کے عمل کو دھچکا لگا ہے لیکن موجودہ حکومت نے تین کروڑ 30 لاکھ پاکستانیوں کی مدد میں معاشی مشکلات کو حائل نہیں ہونے دیا۔ اس عزم کا اعادہ کیاگیا کہ سیلاب کی صورتحال کے باوجود جس طرح موجودہ حکومت نے ملک میں غذائی اجناس اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قلت نہیں ہونے دی، اسی طرح ملک کو بتدریج معاشی مشکلات کے بھنور سے نکالاجائے گا۔ وزیراعظم نے وفاق کے زیرانتظام تمام وزارتوں کو ہدایت کی کہ توانائی کی بچت کی جائے اور کفایت شعاری اختیار کرتے ہوئے اخراجات پر قابو پایاجائے۔