ہائیکورٹ الیکشن کمیشن کو کسی قسم کی ڈکٹیشن نہیں دے سکتی، کنور دلشاد 

اسلام آباد:سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنورمحمد دلشاد نے کہا ہے کہ اگرکوئی ادارہ الیکشن کمیشن کے معاملہ میں مداخلت کرتا ہے یا اختیارات کو کم کرتا ہے تو آرٹیکل 237نے الیکشن کمیشن کو فل اختیاردے دیا کہ وہ فیصلہ اٹھا کر باہر پھینک دے اوراسے نہ مانے۔

 چلو کوئی سات جج بیٹھے ہوں تو پھر بھی اوربات ہے، ایک سنگل رکنی بینچ کا جج کہتا ہے میں حکم جاری کرتا ہوں کہ 90روز کے اندر انتخابات کرائیں۔

 الیکشن کمیشن کے پاس ہائی کورٹ کے مساوی اختیارات ہیں جبکہ چیف الیکشن کمشنر کے اختیارات سپریم کورٹ کے جج کے برابر ہیں۔

ہائی کورٹ الیکشن کمیشن کو کسی قسم کی ڈکٹیشن نہیں دے سکتی کیونکہ اس کے اورہائی کورٹ کے برابر اختیارات ہیں، وہ بلاوجہ الیکشن کمیشن کی ڈانٹ ڈپٹ کرتے جارہے ہیں کہ آپ 90دن میں انتخابات کرادیں۔ 

ان خیالات کااظہارکنوردلشاد نے سرکاری ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔ کنوردلشادکا کہناتھا کہ انتخابات کروانے کے لئے زمینی حقائق یہ ہیں کہ آپ کو امن وامان کی صورتحال بھی دیکھنا پڑتی ہے، آئین کے آرٹیکل 105کے تحت یہ گورنر کے اختیارات ہیں اور گورنر کو کہا گیا کہ وہ الیکشن کی تاریخ مقررکریں۔

 گورنرپنجاب بھی ٹھیک فرما رہے ہیں کہ میں اسمبلی کی تحلیل میں پارٹی نہیں تھااورمیں اس کے خلاف تھا، آئین کے آرٹیکل112کے تحت اسمبلی خودبخود تحلیل ہو گی، ان کا مؤقف بھی درست ہے، آئین اور قانون کے اندر ابہام ہے اس کا کوئی راستہ نکال لیں۔

لاہور ہائی کورٹ کے معزز جج جواد حسن براہ راست حکم الیکشن کمیشن آف پاکستان کو جاری کررہے ہیں، معزز جج صاحب نے یہ نہیں دیکھا کہ آئین کاآرٹیکل 219الیکشن کمیشن کوپورے اختیارات دیتا ہے، جس میں کوئی ادارہ مداخلت نہیں کرسکتا، ڈکٹیشن نہیں دے سکتا، الیکشن کروانا اور حالات کودیکھنا الیکشن کمیشن کا کا م ہے۔ 

آئین کاآرٹیکل 218کہتا ہے کہ شفاف انتخابات کروانے کے لئے ماحول کو دیکھا جاتا ہے کہ ماحول کیسا جارہا ہے۔