اسلام آباد:پنجاب میں انتخابات میں تاخیر کے معاملے کو سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے ازخود نوٹس کیلئے چیف جسٹس کو بھجوا دیا۔
سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر تبادلہ کیس میں سپریم کورٹ نے تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب اسمبلی 14 جنوری کو تحلیل ہوئی تھی، آئین کے تحت 90 دن میں انتخابات ہونا لازمی ہیں، ابھی تک پنجاب میں صوبائی عام انتخابات کیلئے کوئی پیشرفت نہیں ہوئی، صوبائی عام انتخابات تاخیر کا شکار ہونے کا خطرہ موجود ہے۔
تحریری حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ انتخابات کا معاملہ براہ راست بنچ کے سامنے نہیں، براہ راست کیس نہ ہونے کی وجہ سے انتخابات کے حوالے سے کوئی حکم جاری نہیں کر سکتے، عام انتخابات کا معاملہ سنجیدہ نوعیت اور بنیادی حقوق کے نفاذ کا ہے، آئین کا دفاع کرنا عدالت کا قانونی آئینی اور اخلاقی فرض ہے۔
حکم نامے کے مطابق پنجاب میں تقرر و تبادلوں کا معاملہ انتخابات سے جڑا ہوا ہے، وفاقی حکومت کے مطابق غلام محمود ڈوگر کا تبادلے سے کوئی تعلق نہیں، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تبادلہ گورنر پنجاب کی جانب سے کیا گیا ہے۔
تحریری حکم نامے میں مزید کہا گیا چیف الیکشن کمشنر نے انتخابات کی تاریخ دینے سے معذوری ظاہر کی، انہوں نے بتایا آئین کے تحت تاریخ مقرر کرنا گورنر کا اختیار ہے، چیف الیکشن کمشنر نے بتایا گورنر نے انتخابات کی تاریخ دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلی تحلیل نہیں کی تو تاریخ بھی نہیں دوں گا۔
سپریم کورٹ کے تحریری حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ صوبائی انتخابات 90 دن میں نہ ہوئے تو آئین کی کھلی خلاف ورزی ہوگی، پنجاب میں عام انتخابات کا معاملہ سوموٹو کیلئے بہترین کیس ہے، چیف جسٹس مناسب سمجھیں تو نوٹس لیکر سماعت کیلئے بنچ تشکیل دیں۔
قبل ازیں سپریم کورٹ آف پاکستان نے چیف الیکشن کمشنر کو انتخابات کے راستے میں حائل رکاوٹوں کی تفصیلات جمعہ کو پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
جمعرات کو سپریم کورٹ نے سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کے تبادلے سے متعلق کیس پر سماعت کی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کاحکم تھا پھر بھی سی سی پی او تبدیل کیوں کیا گیا؟
غلام محمود ڈوگر کو ٹرانسفر کرنے کی اتنی جلدی کیا تھی؟۔جسٹس مظاہرعلی اکبر نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کا کردار انتخابات کے اعلان کے بعد ہوتا ہے، آدھے پنجاب کو ٹرانسفر کر دیا، پنجاب میں ایسا کوئی ضلع ہے جہاں ٹرانسفر نہ ہوا ہو؟۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کوسپریم کورٹ کے حکم کا علم نہیں تھا؟ الیکشن کمیشن اپنے کام کے علاوہ باقی سارے کام کر رہا ہے۔نگران حکومت کو بڑے پیمانے پر تبادلوں کی اجازت نہیں دی جاسکتی، نہ ہی آئین اس کی اجازت دیتا ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگرکے ٹرانسفر کیس میں طلب کرنے پر چیف الیکشن کمشنرڈاکٹر سکندر سلطان راجہ سپریم کورٹ میں پیش ہوگئے۔چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ عدالت حکم دے تو تبادلے روک دینگے، الیکشن کی تاریخ خود دیں تو آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔
عدالت نے قراردیا کہ الیکشن کمیشن ایک آئینی اور خود مختارادارہ ہے، آپ نے کسی کے احکامات پر عمل نہیں کرنا اورخودفیصلہ کرنا ہے، الیکشن کمیشن کا بنیادی کام شفاف انتخابات کرانا ہے اوراگراسمبلی تحلیل ہوجائے تو90روز کے اندر انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، الیکشن کمیشن اس کی ضرور پابندی کرے اور اگر الیکشن کمیشن ایسا نہیں کرتا تویہ آئین کے آٹیکل کی خلاف ورزی ہو گی۔
عدالت نے قراردیا ہے کہ تمام ادارے آئین پر عملدرآمد کرنے اور انتخابات کے معاملہ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی معاونت کرنے کے پابند ہیں۔چیف الیکشن کمشنرڈاکٹر سکندر سلطان راجہ نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ مجھے اپنے اختیارات اور آئینی تقاضے پر عمل کرنے سے روکا جا رہا ہے۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ عدلیہ ریٹرننگ افسران نہیں دے رہی، حکومت بجٹ نہیں دے رہی اور آرمی کو سیکیورٹی کا کہتے ہیں وہاں سے انکار کردیا جاتا ہے، ایسے میں صاف، شفاف انتخابات کس انداز میں کروائیں گے۔ اس پر جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ کیا یہ معاملات حکومت کے ساتھ اٹھائے گئے ہیں۔
اس پر چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ حکومت کے نوٹس میں تمام معاملات کو لا چکا ہوں لیکن ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔ اس پرعدالت نے چیف الیکشن کمشنر سے حکومت اوراداروں کے ساتھ ہونے والی تمام خط وکتابت کا ریکارڈ (آج)طلب کر لیاہے۔