سپورٹس میں لیجنڈز کا فقدان 

کھیلوں کی دنیا میں اب لیجنڈز کم ہی پیدا ہو رہے ہیں‘اس بیانیہ کو سمجھنے کے واسطے آپ کو درج ذیل حقائق پر ایک غیر جانبدارانہ نظر ڈالنا ہوگی‘1950 ء کی دہائی میں پشاور چھاؤنی کے قریب واقع نواں کلے  سے تعلق رکھنے والے چند افراد جن کے نام تھے‘ہاشم خان‘اعظم خان‘روشن خان اورہدایت جہاں نے دنیائے سکواش میں پاکستان کا نام روشن کیا اور ایک لمبے عرصے تک وہ سکواش کی دنیا کے بے تاج بادشاہ رہے دنیا کا کوئی کھلاڑی ان کو سکواش کی کورٹ میں شکست نہ دے سکا‘ان کی دیکھا دیکھی اسی گاؤں میں محب اللہ سینئر اور محب اللہ جونیئر نامی افراد نے بھی ایک لمبے عرصے تک سکواش کی کورٹ میں حکمرانی کی‘ یہ بات 1950 ء1960 ء اور 1970 ء کے عشروں کی ہے ماضی قریب میں جہانگیر خان اور جان شیر خان  نے بھی جن کے تانے بانے بھی نواں کلے سے ملتے تھے‘دنیا کے سکواش کے میدان میں ایک لمبے عرصے تک اپنا سکہ جمائے رکھا‘افسوس کہ ان خان براداران کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے گاؤں میں پھر کوئی ان کے معیار کا کھلاڑی پیدا نہ ہو سکا اگر ہم دنیائے کرکٹ پر ایک تنقیدی نظر ڈالیں تو آسٹریلیا کے ڈانلڈ بریڈمین جیسا بلے باز دنیا نے پھر نہ دیکھا‘بریڈمین کا زمانہ 1930 ء اور 1940ء کی دہائیوں پر محیط تھا اور یہ ان کا طرہ امتیاز ہے کہ ان کی بیٹنگ کی اوسط9  اعشاریہ99  تھی جو کرکٹ کی دنیا میں آج تک کسی اور بلے باز کو نصیب نہ ہو سکی۔ہاکی کے میدان میں بھارت کے سینئر فارورڈ دہیان چند کے پائے کا کوئی کھلاڑی آج تک پیدا نہ ہو سکا‘1936 ء کے ورلڈ اولمپکس کے فائنل میں جو برلن میں کھیلا جا رہا تھا  ہٹلر بھی دیکھ رہا تھا وہ دہیان چند کے کھیل سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے اسے جرمنی کی شہریت کی پیش کش کی جو دہیان چند نے ٹھکرا دی ‘ فٹبال کے کھیل میں برازیل کے پیلے  اور ارجنٹینا کے میرا ڈونا کے ہم پلہ کوئی دوسرا کھلاڑی دنیا نے پھر نہیں دیکھا  ادھر پاکستان سے تعلق رکھنے والے علیم ڈار نے 22 سال عالمی سطح پر کرکٹ امپائرنگ کرنے کے بعد کرکٹ کے ایلیٹ پینل سے elite panel  سے  استعفیٰ دے دیا ہے‘ یہ یقیناً ان کے اور پاکستان کے لئے اعزاز کی بات ہے کہ انہوں نے اتنے لمبے عرصے تک عالمی کرکٹ میں غیر متنازعہ قسم کے فیصلے دئیے اور کرکٹ کے کھلاڑیوں کی نظر میں اپنے لئے ایک اچھا مقام بنایا‘ یہ اعزاز بھی ان کے پاس ہے کہ انہوں نے سب سے زیادہ ٹیسٹ اور ون ڈے میچوں میں امپائرنگ کی‘ ایک لحاظ سے ہم علیم ڈار کو کرکٹ کی امپائرنگ کے شعبے کا لیجنڈ قرار دے سکتے ہیں وہ اس ملک میں کرکٹ امپائرنگ کو اپنا کیریر بنانے والے تمام نوجوان امپائروں کے لئے ایک رول ماڈل ہیں۔ان چند ابتدائی کلمات کے بعد اس خوشخبری کا بھی  ذرا ذکر   ہو جائے جو وزیر توانائی ڈاکٹر مصدق  نے سنائی ہے کہ چند روز بعد یعنی اپریل سے روس سے سستے تیل کی ترسیل شروع ہو جائے گی‘اس دن کا اس ملک کے غریب باسیوں کو شدت سے انتظار ہے اب یہ حکومت کے متعلقہ محکموں کی ذمہ داری ہے کہ اس سستے تیل کے ثمرات عام آدمی تک بھی پہنچیں اور ان اشیائے صرف کی قیمتیں بھی گریں کہ جنہیں ہمارے تاجر اس وقت مہنگا کر دیتے ہیں جب ملک میں درآمد ہونے والے تیل کی قیمتیں عالمی مارکیٹ میں اوپر چڑھتی ہیں‘پاکستان کے عوام کو امید رکھنی چاہئے کہ روس سے تیل کی درآمد شروع ہو گئی تو ان کی مشکلات میں کافی حد تک کمی آجائے گی۔