کہ بولتے تو سبھی ہیں کمال کم کم ہے 

 ان دنوں ہمارے چاروں اور ایک عجیب سا سلسلہ روز و شب چل رہا ہے کہ ہر طرف سے ایک یورش اور یلغار کا سا سماں نظر آ رہا ہے، عدم برداشت کا جو چلن اب دیکھنے کو مل رہا ہے شاید ہی کبھی ایسا رہا ہو،ہر شخص اپنا اپنا راگ الاپ ہی نہیں رہا اس پر بضد بھی ہے کہ اس کی راگنی بھلے سے بے وقت کی راگنی ہو مگر اسے سنا جائے اور جب سب اپنی اپنی ہی سنا رہے ہوں تو دوسروں کے سننے کو دماغ کہاں سے آئے گا اور اس افرا تفریح اور ہنگامہ میں شور ہے کہ ایک بار پھر بڑھتا جا رہا ہے، زندگی کا کاروان جب راستہ بھٹک کر پر شور وادی میں پڑاؤ ڈال دے تو اپنی آواز بھی اپنی سماعت تک پہنچانا مشکل ہوجا تا ہے، مان لیں کہ سماعت ان دنوں فارغ ہو گئی ہے گویاسستا رہی ہے آرام کر رہی ہے کیونکہ ہم میں سے ہر ایک کو بس بولنا ہے سننا نہیں ہے میں یہ تو نہیں جانتا کہ مسلسل بولنے سے انسان باؤلا ہو جاتا ہے یا پھر باؤلا ہو کر مسلسل بولتا ہے،اور اب تو زندگی کا قافلہ جہاں رکا ہوا ہے وہاں سننے کا رواج اب بہت کم ہو تا جا رہا ہے، کہیں کوئی سنتا نظر بھی آئے تو یقیناََ وہ اپنی بولنے کی باری کا انتظار کر رہا ہو گا، بچپن سے اساتذہ کا کہنا ساتھ ساتھ ہی بڑا ہوتا گیا کہ ہمیں ایک زبان اور دو کان اس لئے دیئے گئے ہیں کہ بولنا کم اور سننا زیادہ ہے مگر مجال ہے کہ کبھی کسی نے اس بات پر عمل کیا ہو اور پھر اس سے بڑا المیہ یہ بھی ہوا ہے کہ رفتہ رفتہ بولتے ہوئے یار لوگوں نے گفتگو کی تمام تر شائستگی،رکھ رکھاؤ اور وضعداری کو بالائے طاق رکھنا شروع کر دیا ہے اور اب تو عالم یہ ہے کہ بولنا صرف زبان تک محدود ہی نہیں رہا لہجہ تنک جاتا ہے اور پھر چہرے کا تناؤ بھی بولتا ہے لہراتے ہوئے ہاتھ اور متنبہ کرتی ہوئی انگلیاں بھی بولتی ہیں،اور پھر دل کا جو غبار لفظوں سے پورے طور پر ادا نہیں ہو پا تا چہرے کا بگاڑ اسے پورا کر دیتا ہے حیدر علی آتش نے کہا ہے
 لگے منہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
 زباں بگڑی سو بگڑی تھی خبر لیجیے دہن بگڑا
 بولنے سے فرصت ملے تو دہن کے بگڑنے کی طرف دھیان جائے یوں چاروں اور اب بولنے اور زور و شور سے بولنے کی حکمرانی ہے لڑکپن میں ایک حکایت پڑھی تھی کہ کسی شہر میں تین فلسفی رہتے تھے ایک دن انہوں نے سوچا کہ شہر میں شور بہت بڑھ گیا ہے ہمیں یہاں سے چلے جانا چاہئے اور یوں تینوں شہر کے باہر ایک ویرانے میں بیٹھ گئے، کوئی سال بھر بعد ایک فلسفی نے کہا واقعی یہ جگہ بہت پرسکون ہے مزید ایک سال بعد دوسرے فلسفی نے کہا میں متفق ہوں آپ سے یہاں بہت سکون ہے جس کے سال بھر بعد تیسرا فلسفی یہ کہتے ہوئے کہیں اور آگے چل دیا کہ ”آپ لوگ بہت بولتے ہیں“ زیب النسا مخفیؔ سے منسوب ایک شعر کچھ یوں ہے کہ 
 اے عندلیب ناداں غوغا مکن بہ اینجا
 نازک مزاج ِ شاہاں تاب سخن ندارد
(اے ناداں بلبل یہاں شور و غوغا مت کر کہ بادشاہ وں کی طبع نازک تو بات سننے کی تاب بھی نہیں رکھتی) لیکن اگلے وقتوں کے بادشاہوں کی نازک مزاجی بھی ان کے ساتھ گئی اب تو ”بادشاہ“ خود بھی بولتے ہیں اور دوسروں کو بھی بولنے کی ترغیب دلاتے رہتے ہیں، شاید اس لئے بھی کہ اب زمانہ اس فارسی ضرب المثل کے دور سے بہت آگے آ چکا ہے جب کہا جاتا تھا کہ ”رموز مملکت خویش خسرواں دانند“ (حکومت و ملک کے اسرار و رموز شاہان وقت ہی جانتے ہیں) یہ
ضرب المثل دراصل حافظ شیرازی کے ایک مصرع سے اخذ کی گئی ہے ”رموز مصلحت ِ ملک خسرواں دانند“ بہر حال اب حکومت و مملکت کے اسرار و رموز سوشل میڈیا پر رلتے پھر رہے ہیں، اب کوئی بھی شخص سیاست سے ا ور حکومتی راز و نیاز سے بے بہرہ نہیں رہا،کسی ریڑھی والے سے سبزی یا فروٹ خریدتے وقت ذرا سا بھاؤ تاؤ کریں تو حکومت کی غلط پالسیوں سے لے کر مہنگائی تک کے موضوع پر وہ لیکچر جھاڑ دے گا کہ چودہ طبق روشن ہو جائیں گے، عالمی سیاست سے ملکی سیاست تک گلی گلیاروں میں اور کوچہ و بازاروں میں ایسی ایسی باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ حیرانی ہوتی ہے پھر ان دنوں سوشل میڈیا بھی اچھا خاصا ہائیڈ پارک بن چکا ہے جس کے جو من میں آتی ہے بلا تکلف وہیں جا کر اُنڈیل دیتا ہے، البتہ اس بات پر میں بہت حیران ہو تا ہوں کہ جب بھی ”ٹوئٹر“ پر کوئی حکومتی عہدے دار، اپوزیشن کے کیمپ سے کوئی طرح دار یا میڈیا کا کوئی شہسوار کسی بھی مسئلہ پر کوئی ’ٹوئٹ‘ کرتا ہے تو اس پر حق اورمخالفت میں ایسے ایسے تبصرے اور محاکمے کئے جاتے ہیں کہ دانتوں پر پسینہ آ جاتا ہے اور گمان گزرتا ہے کہ اب نہ جانے کتنا عرصہ اسے دوبارہ ٹوئٹ کی ہمت نہیں ہو گی، مگر سخت سست سن کر اور بسا اوقات تو ناگفتہ بہ کمنٹس تک پڑھنے کے بھی پھر سے ایک نیا اور متنا زعہ ٹوئٹ کر دیا جاتا ہے جس پر غالبؔ کے شعر کی صداقت کا یقین آ جاتا ہے
 کتنے شیریں ہے تیرے لب کہ رقیب
 گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا
 میں نے کہا نا کہ ا ب ہم میں سے ہر ایک کو بس بولنا ہے سننا نہیں ہے اس لئے میں یہ تو نہیں جانتا کہ مسلسل بولنے سے انسان باؤلا ہو جاتا ہے یا پھر باؤلا ہو کر مسلسل بولنے لگتا ہے،لیکن یہ بات طے ہے کہ کسی کو اس بات کی فکر نہیں ہے کہ آوازوں کا یہ شور آلودگی بن کر ماحول کو کتنا پراگندہ کر رہا ہے، کیا کروں ا پنا ہی شعر راستہ روکے کھڑا ہے 
 لو اب تو کھل گئی خوش قامتی ئ یاراں بھی
 کہ بولتے تو سبھی ہیں کمال کم کم ہے