دی کیرالہ اسٹوری نے سیاسی بحث چھیڑ دی

بھارت میں ایک اور متنازع ہندی فلم ”دی کیرالہ اسٹوری“ نے سیاسی بحث چھیڑ دی ہے۔ جس میں کیے گئے غیر مصدقہ دعوؤں  کو ثابت کرنے پر ایک کروڑ روپے کا اعلان کیا ہے۔

بھارت میں ایک مسلمان وکیل نے فلم میں کئے گئے دعوؤں کو ثابت کرنے پر انعامات کا اعلان کیا ہے۔

بالی ووڈ اداکارہ ادا شرما نے اس فلم میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔

فلم کے ٹریلر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کیرالہ میں 32 ہزار خواتین نے اسلام قبول کیا اور دہشت گرد تنظیم داعش میں شمولیت اختیار کی، جس سے بڑے پیمانے پر سیاسی تنازعہ شروع ہوگیا۔

اب مسلم یوتھ لیگ کی کیرالہ اسٹیٹ کمیٹی نے فلم میں لگائے گئے الزامات کو ثابت کرنے والے کے لیے 1 کروڑ روپے کے انعام کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ ثبوت فراہم کرنے کے لیے مراکز 4 مئی کو ہر ضلع میں کھولے جائیں گے، اور کوئی بھی ان مراکز میں تفصیلات جمع کرا سکتا ہے۔

کمیٹی کے پوسٹر میں لکھا گیا ہے کہ ”الزامات کو ثابت کریں کہ 32,000 کیرالائی خواتین مذہب تبدیل کرکے شام فرار ہوئیں۔ چیلنج قبول کریں اور ثبوت پیش کریں۔“

دریں اثنا، ایک مسلم وکیل اور اداکار، جنہوں نے حال ہی میں اپنی بیٹیوں کی مالی حفاظت کے لیے اسپیشل میرج ایکٹ (ایس ایم اے) کے تحت اپنی بیوی سے دوبارہ شادی کی، انہوں نے بھی کیرالہ سے تعلق رکھنے والی 32 ہزار خواتین کے خلاف ثبوت پیش کرنے کے لیے 11 لاکھ روپے کی پیشکش کی۔

سی شکور، جو کنچاکو بوبن اسٹارر ’نا تھان کیس کوڈو‘ میں وکیل کے کردار کے لیے جانا جاتے ہیں اور ایس ایم اے کے تحت اپنی بیوی سے دوبارہ شادی کرنے کے لیے مشہور ہیں، نے ایک فیس بک پوسٹ میں کہا، ”میں ان لوگوں کو 11 لاکھ روپے کی پیشکش کر رہا ہوں۔ جو کیرالہ کی لڑکیوں کے اسلام قبول کرنے اور داعش کی رکن بننے والی خواتین کے نام اور پتے جیسی معلومات شائع کرتے ہیں۔ 32,000 خواتین کے لیے ثبوت پیش کرنے کی ضرورت نہیں، صرف 32 کافی ہیں۔“

انہوں نے مزید کہا کہ تین خواتین، جنہوں نے دو بھائیوں سے شادی کی جو پلکاڈ کے رہنے والے تھے، ”صرف رپورٹ شدہ کیسز ہیں جو کیرالہ سے مسلم کمیونٹی کے باہر سے آئی ایس آئی ایس میں شامل ہوئیں“۔

انہوں نے مزید کہا، ”ہر کسی کو ’لو جہاد‘ کیس کے بارے میں بغیر کسی ثبوت کے ایک کمیونٹی اور ریاست پر الزام لگانا بند کر دینا چاہیے جسے ہائی کورٹ نے بھی خارج کر دیا تھا۔“

وپل امرت لال شاہ کی پروڈیوس کردہ ’دی کیرالہ سٹوری‘ 5 مئی کو سینما گھروں میں ریلیز ہونے والی ہے۔

سدیپتو سین کی تحریر اور ہدایت کاری میں بننے والی اس فلم میں ”تقریباً 32,000 خواتین“ کے مبینہ طور پر لاپتہ ہونے کے پیچھے ہونے والے واقعات کو ”بے نقاب“ کرنے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

حکمراں سی پی آئی (ایم) کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کانگریس نے بھی خواتین کے مذہب تبدیل کرنے، بنیاد پرست ہونے اور انہیں ہندوستان اور دنیا میں دہشت گردی کے مشنوں میں تعینات کرنے کا جھوٹا دعویٰ کرنے پر فلم بنانے والوں پر تنقید کی ہے۔ کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پنارائی وجین نے ایک بیان میں کہا کہ یہ فلم جان بوجھ کر فرقہ وارانہ پولرائزیشن اور سنگھ پریوار کے پروپیگنڈے کو پھیلانے کے مقصد سے بنائی گئی تھی۔

ان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے، ”ہندی فلم ’دی کیرالہ اسٹوری‘ کا ٹریلر، جو ایسا لگتا ہے کہ جان بوجھ کر فرقہ وارانہ پولرائزیشن اور کیرالہ کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈہ پھیلانے کے مقصد سے بنایا گیا ہے۔ ٹریلر سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ یہ فلم سنگھ پریوار کے پروپیگنڈے کو پھیلانے کی کوشش کر رہی ہے، جس نے خود کو سیکولرازم کی سرزمین کیرالہ میں مذہبی انتہا پسندی کے مرکز کے طور پر قائم کیا ہے۔“

دوسری جانب کئی کتابوں کے مصنف، کانگریس کے سینئر لیڈر اور ترواننت پورم کے ایم پی ششی تھرور ششی تھرور نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ ”یہ تمہاری کیرالہ اسٹوری ہوگی ، ہماری کیرالہ اسٹوری نہیں۔“

تاہم، انہوں نے بعد میں اپنے بیان کی وضاحت بھی کی اور لکھا، ”میں فلم پر پابندی کا مطالبہ نہیں کر رہا، لیکن اظہار رائے کی آزادی صرف اس لیے اپنی قیمت کھو دیتی ہے کہ اس کا غلط استعمال کیا جا سکتا ہے۔ لیکن کیرالیوں کو آواز بلند کرنے کا پورا حق ہے کہ یہ ہماری حقیقت کی غلط بیانی ہے۔“