اہم قومی اور عالمی معاملات کا ایک جائزہ

وفاقی وزیر تخفیف غربت و سماجی تحفظ شازیہ مری کا یہ کہنا بجا ہے کہ بی آئی ایس پی 90لاکھ غریب خاندانوں کی مالی کفالت کر رہا ہے مگر اب بھی بہت بڑی تعداد مالی مسائل کا شکار ہے اور ضروت اس امر کی ہے کہ عوام کی مشکلات کم کرنے کیلئے وفاقی اور صوبائی حکومتیں اورعالمی ادارے مل جل کر کام کریں۔ سچ تو یہ ہے کہ بی آئی ایس پی ایک ایسا سماجی تحفظ کا پروگرام ہے کہ اس سے غریبوں کو حاصل ہونیوالے فوائد کو ملک کے ہر سیاسی اور سماجی حلقے نے تسلیم کیا ہے وقت نے عام آدمی کے واسطے اس کی افادیت کو مانا ہے اور کسی حلقے سے یہ آواز نہیں اُٹھی کہ اسے بند کیا جائے۔اب کچھ تذکرہ عالمی امور کا ہوجائے جہاں چینی قیادت اپنی بھرپور دانش کا مظاہرہ کررہی ہے اور اگر کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ اس وقت عالمی سیاست پر چین کا بول بالا ہے۔حال ہی میں چین نے جرمن وزیر خزانہ کا دورہ اچانک منسوخ کرنے سے ذرا پہلے چینی وزیر خارجہ کے دورہ برلن کا اعلان کیا۔ مبصرین کے مطابق چین اس سے دونوں اقتصادی طاقتوں کے درمیان سفارتی تعلقات کے متعلق ملا جلا پیغام دینا چاہتا ہے۔کن گینگ نے  گزشتہ  روز اعلان کیا کہ وہ منگل کے روز برلن جا رہے ہیں اور اپنے جرمن ہم منصب انالینا بیئربوک سے ملاقات کریں گے۔ جرمن وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے ان کے دورے کی تصدیق کی ہے۔تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چین نے اس اقدام کے ذریعہ دونوں اقتصادی طاقتوں کے درمیان سفارتی تعلقات کے حوالے سے ملا جلا پیغام دینے کی کوشش کی ہے۔چینی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ کن گینگ پانچ دن کے یورپی دورے کے دوران فرانس اور ناروے بھی جائیں گے۔چین اور جرمنی کے درمیان سیاسی تعلقات اور بات چیت میں حالیہ دنوں میں گرم جوشی پیدا ہوئی ہے۔جس وقت جرمن وزیر خزانہ کے دورے کی تیاریاں تقریباً مکمل ہو چکی تھیں اور وہ  اپنے چینی ہم منصب لیو کن سے ملاقات کرنے والے تھے، اسی وقت چین نے دھچکا دیتے ہوئے لنڈنرکے مجوزہ دورے کو منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا۔چینی عہدیداروں نے کہا کہ دونوں رہنماؤں کے مابین ملاقات میں بعض مسائل تھے جس کی وجہ سے جرمن وزیر خزانہ کا دورہ منسوخ کیا گیا ہے۔اس ملاقات میں دونوں وزرائے خزانہ چین اور جرمنی کے درمیان ہونے والے اعلی سطحی مالیاتی مذاکرات کا خاکہ تیار کرنے والے تھے۔چین نے جاپان میں جی 7 کے وزرائے خزانہ کی میٹنگ کے بعد لنڈنر کے دورے کی پیش کش کی ہے لیکن جرمن وزیر خزانہ کے دفتر کا کہنا ہے کہ اتنے کم وقت میں وزیر خزانہ دورے کے لئے دستیاب نہیں ہوں گے۔کچھ لوگوں کا تو خیال ہے کہ چین کی طرف سے لنڈنر کے دورے کو اچانک منسوخ کرنے کی وجہ ان کی فری ڈیموکریٹک پارٹی کی فری مارکیٹ نظام والی سوچ ہے۔ ان کی پارٹی کے بعض رہنماؤں نے مارچ میں تائیوان کا دورہ کیا تھا، جس سے  چین ناراض ہے۔اس کے ساتھ ساتھلنڈنر یوکرین میں روسی فوجی حملے پر چین کے موقف اور اس کے انسانی حقوق کے ریکارڈ  پر بھی کھل کر نکتہ چینی کرتے رہے ہیں۔چین میں جس طرح جرمنی کے وزیر خزانہ کا دورہ منسوخ کیا اور یکطرفہ طور پر یہ قدم اٹھایا اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ چین یورپی ممالک کو بھی راہ راست پر لانے کے لئے عملی طور پر اقدامات اٹھانے میں سنجیدہ ہے‘ اس وقت یورپ میں امریکہ سے ہٹ کر الگ دفاعی اور معاشی ڈھانچے کی باتیں ہو رہی ہیں اور فرانس پہلے ہی چین کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنے میں اپنی دلچسپی ظاہر کر چکا ہے جبکہ جرمنی بھی ان ممالک میں سے ہے جو یورپ کی پالیسیوں میں کافی عمل دخل رکھتا ہے اگر فرانس اور جرمنی دونوں مل کر امریکہ کی بجائے چین کے ساتھ سٹرٹیجک پارٹنر شپس پر تیار ہوتے ہیں تو اس سے پورے یورپ کا امریکہ کے ہاتھ سے نکلنا یقینی ہو جائے گا اور چین کو یہاں پر مکمل اثرورسوخ حاصل ہونے کی صورت میں یورپ کا نقشہ تبدیل ہو سکتا ہے۔ مستقبل قریب میں اس نقشے کے خدوخال سامنے آسکتے ہیں۔