انتشار اور تناؤ کی کیفیت

اس وقت دنیا انتشار اور تناؤ کے درمیان پھنسی ہوئی ہے، عالمی طاقتوں کے درمیان اثر و رسوخ میں اضافے کی دوڑ لگی ہوئی ہے اور دوسری طرف موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی آلودگی جیسے مسائل ہیں جن کے باعث روئے زمین زندگی خطرے میں پڑگئی ہے۔موسمیاتی تبدیلی کے باعث طوفانوں اور سیلابوں نے دنیا کے کئی خطوں میں تباہی مچائی ہے اور حال ہی میں دو دہائیوں کے سب سے خطرناک طوفان کے خدشہ سے بنگلہ دیش میں لاکھوں افراد نے نقل مکانی کی ہے۔خلیج بنگال میں اٹھنے والے طوفان موچا میں 170کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائیں چلنے اور12فٹ تک طوفانی لہریں اٹھنے کی خبریں سامنے آئی ہیں۔ یہسائیکلون موچا بنگلہ دیش میں تقریبا دو دہائیوں میں آنے والا سب سے طاقتور طوفان ہے۔ نہ صرف بنگلہ دیش میں اس طوفان نے تباہی مچائی بلکہ اس طوفان سے خطے کے دیگر ممالک بھی متاثر ہوئے ہیں۔اس طوفان کے دوران کئی مقامات پر لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات بھی سامنے آئے۔موسمیاتی تبدیلی کے زیر اثرمیانمار کی رخائن ریاستی دارالحکومت سیٹوے شہر میں کئی دنوں سے مسلسل بارش ہو رہی ہے۔ سڑکیں خالی ہو گئی ہیں۔خود پاکستان موسمیاتی تبدیلی کا شکار ہونے والے ممالک میں سرفہرست ہے اور گزشتہ مون سون کے دوران جس طرح سیلابوں نے تباہ کاری مچائی تھی وہ اس سے قبل دیکھنے میں کبھی نہیں آئی اس وقت بھی گرمی کی لہر دوبارہ سے چل پڑی ہے اور جس تیزی کے ساتھ گرمی بڑھ رہی ہے اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آنے والے دنوں میں معمول کی زندگی اس سے متاثر ہو سکتی ہے جہاں تک سیلابوں کی بات ہے تو اس ضمن میں پہلے سے تیاری ضروری ہے کیونکہ عین موقع پر ہنگامی حالات میں اٹھائے گئے اقدامات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتے‘ایک طرف اس جیسے گھمبیر مسائل ہیں جن کا روئے زمین کے باسیوں کوسامناہے اور دوسری طرف عالمی طاقتوں کے درمیان رسہ کشی ہے جو ختم ہونے میں نہیں آرہی۔ دیکھا جائے توا س وقت آ ر مینیا اور آ زر بائیجان کے درمیان ایک عرصے سے ایک سرحدی تنازعے کی وجہ سے تعلقات کشیدہ ہیں جو کسی وقت بھی ان دو ممالک میں تازہ جھڑپ کا باعث بن سکتے ہیں۔ تاہم چین کی مصالحانہ کوششوں کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ان ممالک کے درمیان بھی چین ثالثی کرکے تناؤ کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کریگا۔ جس طرح سعودی عرب اور ایران،سمیت شام اور دیگر عرب ممالک کے تعلقات میں خوشگوار تبدیلی آئی ہے تو امید ہے کہ ارمینیا اور آزربائیجان کے کشیدہ تعلقات بھی چین کی مصالحانہ کوشش سے بہتر ہو سکتے ہیں تو یہ امید کی جا سکتی ہے کہ آ رمینا اور آذر بائیجان کے درمیان بھی کشیدگی کم ہو جائے گی۔ ورنہ تو اس وقت تمام دنیا میں ایک خلفشار کی سی صورت حال ہے آج دنیا کو دور اندیشی بالغ نظر حکمرانوں کی ضرورت ہے کہ جو دنیا کوتیسری عالمگیر جنگ میں ارادی یا غیر ارادہ طور پر جانے سے بچائیں۔دنیا کو ہٹلراور مسولینی نہیں بلکہ نیلسن منڈیلا،نیا رارے ڈیگال اور چو این لائی جیسی سیاسی فہم رکھنے والوں کی ضرورت ہے اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ خدا نہ کرے اگر اب کی دفعہ عالمگیر جنگ چھڑتی ہے تو وہ کرہ ارض کی زیادہ تر آبادی کو یہ جنگ صفحہ ہستی سے مٹا دے گی کیونکہ کئی ممالک کے پاس اٹیمی ہتھیاروں کی بہتات ہے، موجودہ عالمی سیاسی حالات میں چین وہ واحد ملک دکھائی دیتا ہے کہ جس کی قیادت دنیا میں امن و ا شتی کے نظریے کو فروغ دے رہی اور ہر قسم کی اشتعال انگیز کاروائی سے اجتناب کر رہی ہے جو قابل تعریف ہے اور یہ اس کی قیادت کی دانشمندانہ پالیسی کا نتیجہ ہے کہ آج دنیا میں اس کا وقار بڑھ رہا ہے۔اور جنوبی ایشیاء سمیت یورپ اور افریقہ میں چین کا اثرورسوخ کافی بڑھ گیا ہے۔