وفاقی بجٹ 2023 کے خدوخال سامنے آگئے ہیں۔ جس میں گزشتہ سال سے نافذالعمل سپرٹیکس کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ذرائع وزارت خزانہ کے مطابق وفاقی بجٹ پلان آئندہ پیر کو تیار ہونے کا امکان ہے جبکہ بجٹ جون کے دوسرے ہفتے میں پیش کیے جانے کا امکان ہے۔ وفاقی اخراجات کا حجم 10483 ارب روپے رکھے جانے کا امکان ہے۔
ذرائع کے مطابق ایف بی آر محصولات کا ٹارگٹ 8200 ارب روپے رکھے جانے کا امکان ہے۔ آئندہ مالی سال 7.56 ارب ڈالر قرض واپس کیے جانے کا امکان ہے۔ ڈالر میں قرض لینے کا ٹارگٹ آئی ایم ایف کے پیکیج کی مناسبت سے رکھا جائے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ایس ڈی پی کا حجم 800 ارب روپے سے زیادہ رکھے جانے کا امکان ہے۔ نان ٹیکس ریوینیو کا ٹارگٹ 2396 ارب روپے رکھے جانے کا امکان ہے۔ بنکوں سے قرض لینے کا ہدف 1147 ارب روپے رکھے جانے کا امکان ہے۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ صوبوں کو 4853 ارب روپے ادائیگی کا ٹارگٹ رکھنے، بیرون ملک سے 1804 ارب روپے وصولی کا ہدف رکھے جانے کا امکان ہے۔ اس کے علاوہ 2180 ارب روپے نان بنک قرضے کا ٹارگٹ رکھا جائے گا۔
ذرائع وزارت خزانہ کے مطابق آئی ایم ایف نے ایف بی آر سے سپر ٹیکس ختم نہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس لیے آئندہ بجٹ میں 15 کروڑ سے آمدن والوں پر سپرٹیکس ختم نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ 15 کروڑ آمدن پر 1، 20 کروڑ آمدن پر 2، 25 کروڑ آمدن پر 3 فیصد سپر ٹیکس ہوگا۔ 30 کروڑ آمدن پر 5 فیصد اور اس سے زائد آمدن پر 10 فیصد سپر ٹیکس عائد ہوگا۔
ذرائع کے مطابق آٹوموبائل، مشروبات، کیمیکل، فرٹیلائزر، اسٹیل اور سیمنٹ سیکٹر پر سپر ٹیکس عائد ہوگا۔ پیٹرولیم سیکٹر کی 30 کروڑ سے زائد آمدن پر 10 فیصد سپر ٹیکس عائد ہوگا۔ فارماسوٹیکل، شوگر اور ٹیکسٹائل سیکٹر پر 10 فیصد سپر ٹیکس عائد ہو گا۔ بینکنگ سیکٹر پر مالی سال 2023 میں 10 فیصد سپر ٹیکس عائد ہوگا۔
ذرائع آئی ایم ایف نے آئندہ بجٹ میں کوئی ٹیکس ختم نہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔