فاسٹ فوڈ اور بیماریاں 

ایک مرتبہ ایک چیلے نے اپنے گرو سے  یہ سوال کیا کہ گرو جی مجھے ایسا نسخہ بتا کہ میری عمر لمبی ہو جائے تو گرو نے اسے کہا کہ جتناتم  کھاتے ہو اسے آ دھاکر دو اور جتنا تم پانی پیتے ہو اسے ڈبل کر دواور جتنا تم چلتے ہو اسے بھی دو گنا زیادہ چلاکرو‘ گرو نے اپنے چیلے سے یہ بات آ ج سے کئی ہزار سال پہلے کہی  تھی‘آج کا ڈاکٹر بھی آج کے مریض سے یہی بات کرتا ہے اس تمہید کی روشنی میں ہم آج کے انسان کے کھانے پینے کی عادات اور ان کی  وجہ سے اس کو درپیش ایک آ دھ بیماری کاذکر کرنا چاہیں گے جنک فوڈ junk food کی مارکیٹ میں بہتات اور اس کے  استعمال کی طرف  عام لوگوں کی رغبت کی وجہ سے وطن عزیز میں کئی بیماریوں کی شرح میں کثرت سے اضافہ ہو رہا ہے جیسا کہ شوگر  اور بلڈ پریشر کی بیماری  جو اگر کسی کو ایک مرتبہ لگ جائے تو پھر اس کا عارضہ قلب یا گردوں کی بیماری میں مبتلا ہونا یقینی امر  ہو جاتا ہے اور جس سے اسے پھر فالج ہونے  کا  بھی خطرہ   لاحق ہوسکتا ہے اور اس کی بصارت بھی جا سکتی ہے‘  تشویشناک بات یہ ہے کہ یہ بیماریاں چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں میں بھی تیزی سے  پیدا ہو رہی ہیں کیونکہ انہوں نے جسمانی مشقت بھی چھوڑ رکھی ہے اب وہ کھیل کے میدان کا کم رخ کرتے ہیں قصہ کوتاہ اب وہ چوبیس گھنٹے ہیروئن کے نشئی  کی طرح یا تو لیپ ٹاپ اور یا پھر موبائل فون کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں‘ماں باپ بھی ان کو ایسا کرنے سے نہیں روک رہے موبائل کی چھوٹی سکرین کو روزانہ گھنٹوں بھر دیکھنے سے ان کی آنکھوں کی نظر بھی جواب دے رہی ہے اور وہ کم عمری ہی میں نظر کی عینک لگانے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ان چند ابتدائی کلمات کے بعد  کوئی مضائقہ نہیں اگر ہم چند غور طلب عالمی اور قومی امور کا ایک سرسری جائزہ لے لیں‘اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ مقامی سطح پر یعنی گاؤں تحصیل یا سب ڈویژنل  سطح پر کئی ایسے مسائل ہر روزجنم لیتے رہتے ہیں کہ جو میونسپل  نوعیت کے ہوتے ہیں اور اگر دیہات تحصیل اور سب ڈویژن لیول پر  فعال اور متحرک قسم کے  میونسپل ادارے موجود ہوں تو عوام الناس کو چھوٹی موٹی باتوں کے لئے در در کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑیں پر یہ تب ہی ممکن ہے کہ لوکل گورنمنٹ کا نچلی سطح پر ایک جامع ڈھانچہ موجود ہو اور  لوکل گورنمنٹ کے منتخب نمائندوں کے پاس مالی اختیارات بھی ہوں اور معمولی معمولی باتوں کیلئے انہیں صوبائی حکومت کا دروازہ کھٹکھٹانا نہ پڑے‘ اب تک وطن عزیز میں لوکل گورنمنٹ کا نظام اس لئے نہ پنپ سکا کہ نہ تو ہمارے ایم این  اے صاحباں اور نہ ہی ایم پی اے صاحبان یہ چاہتے تھے کہ مقامی سطح پر مالی اختیارات لوکل گورنمنٹ کے منتخب نمائندوں کو ٹرانسفر کر دیئے جائیں کیونکہ ایسا کرنے سے ان کی اپنے مفادات پر زد پڑتی تھی‘ عوامی مسائل کے حل کیلئے لوکل گورنمنٹ کے نمائندے موجود ہوتے ہیں تجربہ یہ بتاتا ہے کہ ایک لمبے عرصے تک لوکل گورنمنٹ کا کام ضلعی سطح پر ڈپٹی کمشنر کے پاس ہوا کرتا تھا وہ ڈسٹرکٹ کونسل کا چیئرمین بھی تھا اور شہری علاقوں میں میونسپل کمیٹی کا سر براہ بھی ڈی سی ہی ہواکرتا تھا‘1970ء کے بعد لوکل گورنمنٹ کے اداروں میں ڈپٹی کمشنر کا کردار محدود کیا جانے لگا مختلف ادوار میں مختلف حکومتوں نے مختلف تجربے کئے پر آج تک کوئی ایسا لوکل گورنمنٹ کا نظام وضع نہیں کیاجا سکا جو 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد ورثے میں ہمیں ملا تھا