استحکام کی ضرورت کا احساس

ملک کے سیاسی منظرنامے میں ہلچل کے ساتھ درجہ حرارت میں کمی کی ضرورت بڑھتی چلی جارہی ہے اسکے ساتھ ملک کو درپیش دیگر اہم چیلنج بھی اس بات کے متقاضی ہیں کہ اب وقت ضائع کئے بغیر اصلاح احوال کیلئے اقدامات اٹھانا ہونگے مدنظر رکھنا ہوگا کہ اس پوری صورتحال میں عام شہری بری طرح متاثر ہو رہا ہے‘وزیراعظم شہبازشریف نے گزشتہ روز کراچی میں خطاب کرتے ہوئے کھلے دل کے ساتھ اس برسرزمین تلخ حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ ملک میں مہنگائی نے غریب کا برا حال کیا ہوا ہے وزیراعظم کا یہ بھی کہنا ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ منہ چھپا کر کہاں جاﺅں ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بجٹ بھی آرہا ہے جبکہ مشکلات بھی ہیں‘ وزیراعظم گرانی سمیت تمام مسائل کے حل کاعزم دہراتے ہوئے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام نہیں آسکتا‘ وزیر اعظم نے تلخ زمینی حقائق کو خندہ پیشانی کیساتھ بیان کیا ہے اور اصلاح احوال کا عزم بھی دہرایا ہے اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ معیشت مشکلات کے گرداب میں ہے غریب لوگ سخت پریشان ہیں کھربوں روپے کے قرضے لیتے ہوئے ہر حکومت قرضہ دینے والوں کی شرائط کا سارا بوجھ غریب شہریوں کو منتقل کردیتی ہے یہ بوجھ بڑھتے بڑھتے اس مقام پر آگیا ہے کہ غریب کی کمر ٹوٹ کر رہ گئی ہے دوسری جانب اقتصادی صورتحال کے تناظر میں ملک کے ڈیفالٹ کر جانے کی باتیں بھی ہونے لگیں جن کی وزارت خزانہ کی جانب سے گزشتہ روز بھی تردید ہوئی جو قابل اطمینان ہے‘ گرانی کا گراف بلند ہونے کے ساتھ دیگر قابل تشویش اقتصادی اشاریوں کے گورکھ دھندے میں پڑے بغیر صرف ڈالر کی قدر کو دیکھ کر صورتحال کی سنگینی کا پتہ چلایا جاسکتا ہے ڈالر کی قدر میں اتار چڑھاﺅ بیرونی قرضوں کے مجموعی حجم کو بھی متاثر کر رہا ہے جہاں تک بات قرضہ دینے والوں کی شرائط پر عملدرآمد کی ہے تو اب کی مرتبہ عالمی مالیاتی ادارے کے مطالبے پر منی بجٹ میں عائد ٹیکس آئندہ مالی سال میں بھی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ٹیکس برقرار رکھنے سے500 ارب روپے کی اضافی آمدنی ہو سکتی ہے یاد رہے کہ اس سال فروری میں حکومت کی جانب سے177 ارب روپے کے ٹیکس لاگو کئے گئے تھے اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر حکومت عوام کو ریلیف دینے کی خواہشمند ضرور رہتی ہے اس ریلیف کیلئے بڑے وسائل کے انتظام اور بہتر حالات کا انتظار کرنے کے ساتھ ضرورت مہیا وسائل کے درست استعمال کے ساتھ چیک اینڈ بیلنس کے موثر نظام کی ہے اس نظام میں صرف مارکیٹ کنٹرول کرکے لوگوں کو بڑا ریلیف دیا جا سکتا ہے اس میں ناجائزمنافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کیساتھ ملاوٹ کا خاتمہ بھی ممکن ہے اس مقصد کیلئے مرکز اور صوبوں کو مل کر ایک موثر نظام تشکیل دینا ہوگا کہ جس میں مارکیٹ پر نظر رکھنے والوں کی رسائی گراس روٹ لیول پر ہو اور اس کا فائدہ عام صارف کو مل سکے اسی طرح خدمات کے ذمہ دار اداروں کو بھی ضرورت کے مطابق وسائل فراہم کرنے کیساتھ اگر کڑی نگرانی کا نظام دیا جائے تو اس میں عوام کو درپیش مشکلات حل کرنے میں معاونت مل سکتی ہے حکومت کیلئے بلاشبہ اس وقت توانائی بحران کا فوری حل مشکل ہے ایسے میں کم از کم بجلی اور گیس کی چوری و ضیاع پر قابو پایا جاسکتا ہے اس مقصد کیلئے بھی ضرورت ایک جامع پالیسی کی ہے کہ جس میں عوامی نمائندوں سے بھی معاونت لی جائے اس سب کیلئے وسیع مشاورت کیساتھ طے پانے والی پلاننگ ہی بہتر نتائج دے سکتی ہے۔