عالمی سطح پر مہنگا ئی کی لہر

اس وقت پوری دنیا میں مہنگائی کی لہر جاری ہے جس نے تمام ممالک کو یکساں متاثر کیا ہے اور ترقی پذیر ممالک کے ساتھ ترقی یافتہ ممالک میں بھی عوام اس سے متاثر ہیں۔مہنگائی نے پاکستانی عوام کو بھی پریشانی میں ڈال رکھا ہے ، المیہ یہ ہے کہ گندم کی ریکارڈ فصل کے باجود مارکیٹ میں آٹے کا بحران ابھی ٹلا نہیں ہے اور قیمت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔کسی دور میں پاکستان کا شمار سستے ترین ممالک میں ہوا کرتا تھا۔۔ پاکستان کا شمار ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے لیکن معاشی مسائل کے باعث ہم اس وقت مشکل میں ہیں غربت ، مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔یہ صرف ہماری حالت نہیں بلکہ زیادہ تر ترقی پذیر ممالک میں مسائل کی نوعیت یکساں ہےاور مہنگائی کے باعث لوگوں کی زندگی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ روزگار کے مواقع کم ہیں یا ختم ہوتے جارہے ہیں یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر ہر سال لاکھوں کی تعداد میں لوگ اپنے آبائی علاقوں کو چھوڑ کر نقل مکانی کر رہے ہیں۔ جہاںتک پاکستان کی بات ہے توبابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک زرعی صنعتی پاکستان کا خواب دیکھا تھالیکن ہم نے زراعت اور صنعت کے شعبوں کو نظر انداز کر کے آج ملک کوٹریڈنگ سٹیٹ بنادیا ہے۔ ہمیں دوبارہ پاکستان کی اصل طاقت زراعت کے شعبے کو ترجیح دینا ہوگی۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ پہلے جن زرعی اجناس میں ہم نہ صرف خود کفیل تھے بلکہ ایکسپورٹ بھی کرتے تھے ، آج ہم انہیں امپورٹ کر رہے ہیں۔ ارض پاک جس نازک صورت حال سے دو چار ہے، اس سے نکلنے کے لئے بنیادی فیصلے اور ان پر سختی سے کار بند ہو کر ہی ملک کو اقتصادی مشکلات سے نکالا جاسکتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ زراعت ہی تمام مسائل کے حل کی کنجی ہے جسے ہم نے نظر انداز کیا ہواہے۔دوسری طرف دیکھا جائے تو پاکستان قدرتی وسائل سے بھر پور ملک ہے ان وسائل کو ملک و قوم کی ترقی کے لئے بروئے کار لایا جائے تو پاکستان بہت جلد خودانحصاری کی جانب گامزن ہو سکتا ہے۔ ملک کو معاشی طور پر اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کے لئے اب ہم سب کو سچے دل سے ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرنا ہوگا تبھی یہ کشتی منجدھار سے نکل کر کنارے پر لگے گی اور پھر وہی ایک فارمولا ہی اس تمام مشکل کا حل ہے اور وہ ہے زراعت پر توجہ مرکوز کرنا۔ زراعت کو ہم ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی تو قرار دیتے ہیں تاہم ساتھ ہی اسے نظر انداز کرنے کی پالیسی پر بھی عمل پیرا ہیں۔ اگر ہم زراعت کو حقیقی معنوں میں ترقی دیتے تو آج ہم ایک پائیدار معاشی حالت میں ہوتے کیونکہ زراعت کے جو لوازمات ترقی کیلئے ضروری ہیں وہ قدرت نے ہمیں فراوانی سے عطا کی ہیں۔ زرخیز زمین ، مثالی آب و ہو ااور محنتی کسان، یہ وہ عناصر ہیں جن سے فائدہ اٹھا کر ہم ملکی ترقی کو پائیدار بنیادوں پر یقینی بنا سکتے ہیں۔ اس وقت دنیا میں کئی ترقی یافتہ ممالک ہیں جن کی ترقی کا انحصار ایک طرف اگر صنعت و حرفت پر ہے تو ساتھ زراعت بھی اس میں کلیدی کردار کا حامل ہے ۔ ہالینڈ ، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا وہ ممالک ہیں جنہوں نے زرعی پیدوار اور مصنوعات کے ذریعے عالمی سطح پر اپنے آپ کو منوایا ہے ۔پاکستان بھی جدید ٹیکنالوجی کو زراعت میں استعمال کرتے ہوئے یہ مقام حاصل کرسکتا ہے۔ ہمارے ہاں دنیا کا بہترین نہری نظام موجود ہے جس سے خاطر خواہ استفادہ نہیں کیا جارہا، اسکے ساتھ ساتھ زراعت کی ترقی کیلئے ہمیں ذخائر آب میں اضافہ کرنا ہوگا تاکہ ایک طرف تو سیلابوں سے فصلوں کی تباہی کا راستہ روکا جاسکے تو ساتھ ہی ان زمینوں کو زیر کاشت لانے میں بھی کامیابی ملے جو پانی نہ ہونے کے باعث بنجر پڑی ہیں اور ذخائر آب میں اضافے سے ان زمینوں تک پانی کی رسائی ممکن ہوسکے گی۔ اس طرف توجہ جس قدر جلد دی جائے اس کے نتائج اتنے ہی بہتر اور موثر سامنے آئیں گے۔