چیدہ چیدہ عالمی اور قومی امور 

ایران روس اور چند دیگر ممالک کے ساتھ حکومت نے تجارت کا لین دین ڈالر کے بجائے بارٹر کے تحت کرنے کا جو حال ہی میں فیصلہ کیا ہے اس کے بارے میں اس وقت کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا یہ تو صرف وقت ہی بتائے گا کہ اس فیصلے سے ملکی معیشت کو کس قدر فائدہ ہوتا ہے پر یہ ایک حقیقت ہے کہ اس خطے کے ممالک ماضی بعید میں آ پس میں جو بھی تجارت کیا کرتے تھے وہ بارٹر ٹریڈ barter trade ہی کہلاتی تھی۔ اس فیصلے کے تحت ایران پاکستان کو آئرن، سٹیل، خام اون، پلاسٹک ،ربڑ ،کھاد اور پھل سبزیاں بر آمد کرے گا ۔ ایک عرصہ دراز کے بعد پاکستان کے تاجر کم و بیش ایک سو سے زائد اشیاءکے بدلے مال کے بدلے مال کے اصول کے تحت تجارت کیا کریں گے ان کو وسطی ایشیا کے کئی ممالک کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کرنے کا ایک زریں موقعہ ہاتھ آ گیاہے۔ جب سے یوکرین اور روس کے درمیان جنگ چھڑی ہے اب تک امریکہ اسے سیکیورٹی کی مد میں 37.6 بلین ڈالرز کی مدد کر چکا ہے پر اس کے باوجود اس کا کلیجہ ٹھنڈا نہیں ہوا اس نے اب اسے مزید 300 ملین ڈالرز کی مالیت کا جنگی سازو سامان دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ وہی امریکہ ہے جس نے سازشوں کے بل بوتے پر 1980 کی دہائی میں اس سوویت یونین کے ٹکڑے کئے کہ یوکرین جس کا حصہ تھا اور اب جب کہ روسی صدر پیوٹن دوبارہ سوویت یونین میں جان ڈالنے کی کوشش کررہا ہے تو امریکہ یوکرین کی ہلہ شیری کر رہا ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ پیوٹن اپنے مقصد میں کامیاب ہو اور اب ذرا ذکر ہو جائے کراچی کے ٹریفک سسٹم کی حالت زار کا۔کراچی میں ٹریفک کا مسئلہ صرف اسی صورت میں حل کیا جا سکتا ہے کہ وہاں اگر سرکلر ریلوے کا نظام رائج کر دیا جائے اس سے ایک طرف اگر سندھ کے دارالحکومت میں بسنے والے لوگوں کو ایک سستی سواری میسر آ جائے گی تو دوسری طرف جانب رکشوں پرانی بسوں ویگنوں اور ٹیکسیوں سے نکلنے والے دھویں سے یہ شہر جو چوبیس گھنٹے فضائی آلودگی کا شکار رہتا ہے اس سے بھی ان کی جان چھوٹ جائے گی۔ یہ امر خواشش آئند ہے کہ بعد از خرابی بسیار کراچی کے ارباب بست و کشاد کو کراچی کے ٹریفک کے نظام کو بہتر بنانے کا خیال انجام کار آہی گیا اور شنید ہے کہ چین کی امداد سے اس پروجیکٹ پر کام ہو رہا ہے۔مقبول بٹ کو آج سے تقریباً چالیس برس قبل بھارت میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا تھا اس کا بھی وہی قصور تھا جو یاسین ملک کا ہے کہ جسے مودی سرکار آج کل پھانسی دینے کی تیاریوں میں مصروف عمل ہے۔ بھارت اور اسرائیل دونوں میں ایک بات قدرے مشترک ہے اور وہ یہ ہے کہ بھارت کشمیری حریت پسندوں کااس طرح قتل عام کر رہا ہے کہ جس طرح اسرائیل فلسطینیوں کو صفحہ ھستی سے مٹانے کی کوشش میں ہے ۔ بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک کو کچلنے کیلئے وہی حربے استعمال کر رہی ہے جو اسرائیل فلسطینیوں کی آزادی کی تحریک کو کچلنے کیلئے استعمال کر رہا ہے اور حیرت اور دکھ کی بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ میں نہ کشمیریوں کی شنوائی ہو رہی اور نہ ہی فلسطینیوں کی۔ ان دونوں آزادی کی تحریکوں پر اقوام متحدہ کی چشم پوشی قابل مذمت ہے ۔اقوام متحدہ کے بلا شبہ کئی پلس پوائنٹ بھی ہیں جیسا کہ افریقہ کے کئی ممالک میں خانہ جنگی کے ممکنہ خطرات کو روکنے کیلئے ان ممالک میں اقوام متحدہ کے امن مشنز کی تعیناتی اور ناگہانی آفات سے متاثرہ ممالک کی مالی امداد، پر فلسطین اور مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی بربریت کو روکنے میں اقوام متحدہ کی ناکامی اس ادارے کے اچھے کاموں پر پانی پھیر رہی ہے۔