وطن عزیز کے نامیوں کو نہ بھلایا جائے 

پاکستان ٹیلی ویژن کا ظہور 1964میں ہوا ایک لمبے عرصے تک تو اس کے مد مقابل کوئی دوسرا ٹیلیویژن تھا ہی نہیں ‘ عام تاثر تو یہ ہے کہ کسی بھی شعبہ زندگی میں اگر مقابلے کا رجحان نہ ہو تو اس شعبے کی کارکردگی ماند پڑ جاتی ہے پر اس کے باوجود پی ٹی وی نے شاندار کارکردگی دکھائی۔اس کے اکثر پروگرام بڑے معیاری ہوتے تھے اور کمال کی بات یہ تھی کہ پی ٹی وی ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے ناظرین کے شوق اور ذوق سلیم کا خیال رکھتا تھا۔مشاعرے، کلاسیکی موسیقی کے پروگرام، ڈرامے ،فوک میوزک، خبرنامے غرضیکہ کہ ہر شعبہ زندگی پر پی ٹی وی نہایت معیاری پروگرام پیش کیا کرتا۔آج کل تو ان گنت چینلز ہیں اور ہر کوئی ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں ہے ‘ٹیلی ویژن چینلز کے پروگراموں کو تواتر سے دیکھنے والوں کا البتہ یہ گلا کافی حد تک اپنی جگہ درست ہے کہ کسی بھی ٹی وی چینل نے زندگی کے مختلف شعبوں میں غیر معمولی کام کر کے دنیا میں پاکستان کا نام اونچا کرنے والوں اور پاکستان کی عالمی سطح پر شناخت کرنے 
والے پاکستانی شخصیات کی زندگیوں اور ان کے کارناموں پر دستاویزی فلمیں یعنی کہ ڈاکومینٹری فلم تخلیق نہیں کی لہٰذا اس ملک کی نئی نسل اپنے عظیم افراد کے کارناموں سے بے خبر اور ناواقف ہے۔انگلستان میں ملٹری ہسڑی چینل کے نام سے ایک ٹیلی ویژن چینل ہے جس نے ان برطانوی فوجی جوانوں پر دستاویزی فلمیں بنا رکھی ہیں کہ جنہوں نے پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں اپنے وطن کی حفاظت کرتے ہوئے میدان جنگ کے میدان میں کارہاے نمایاں سر انجام دئیے تھے ان پر وہ دستاویزی فلمیں ٹیلی کاسٹ کی جاتی ہیں ہم آخر ایسا کیوں نہیں کر سکے۔ اسی طرح تعلیم ادب سائنس اور سپورٹس کے میدانوں میں بھی ہم نے کئی ایسے نابغے پیدا کئے کہ جن کی عوام میں اتنی پروجیکشن نہیں ہوئی کہ جتنا ان کا حق بنتا تھا‘ ہم ذیل کی سطور میں چند ایک نام اس امید کے ساتھ درج کر رہے ہیں کہ متعلقہ سرکاری محکموں کے ارباب بست و کشاد اس معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی شخصیت کے مختلف پہلوﺅں بشمول ان کے کار ناموں کو سیلو لائیڈ celluloid پر منتقل کر کے ان پر بنائی گئی دستاویزی فلموں کو مناسب وقت پر ہر سال ٹیلی کاسٹ کیا کریں گے‘ سب سے پہلے ہم مختلف کھیلوں کے میدانوں سے تعلق رکھنے والے ان کھلاڑیوں کے نام گنوائے دیتے ہیں کہ جن کا ثانی دنیا نے پھر نہیں دیکھا۔سکواش کا عظیم کھلاڑین ہاشم خان، قومی کرکٹ ٹیم کا ایک سابق میڈیم فاسٹ باﺅلر فضل محمود،پاکستان ہاکی ٹیم کا فاروڈ رائٹ ان حمید خان حمیدی ، سماجی بہبود اور عوامی خدمت کے شعبوں میں ایدھی مرحوم اور ان 
کی اہلیہ کا نام بھلا کوئی کیسے بھول سکتا ہے۔ یہ توہم 
نے ان چند ناموں کا صرف سرسری ذکر کیا ہے کہ جو اس وقت ہمارے ذہن میں آ رہے تھے اس فہرست میں کئی اور نام بھی شامل کئے جا سکتے ہیں‘ ہو سکتا ہے کئی نام ہم سے رہ گئے ہوں جس کےلئے ہم پیشگی معذرت خواہ ہیں۔اور اب ذرا ذکرہو جائے دیگر اہم قومی اور عالمی معاملات کا۔یہ جو حال ہی میں ہم نے اپنے ایک پچھلے کالم میں بارٹر سسٹم پر تجارت کا ذکر کیا تھا اس ضمن میں مزید یہ معلوم ہواہے کہ اس بارٹر سسٹم میں ایک ارب 15کروڑ کی برآمدات اور دو ارب ڈالر کی درآمدات کی صلاحیت ہے ‘موجودہ عالمی حالات کے پیش نظر پاکستان ایران افغانستان اور روس کے درمیان مال کے بدلے مال کا طریقہ کار ہی بہترین آ پشن ہے‘ بارٹر سسٹم سے ڈالر پر دباﺅ کم ہو گا‘ گرمی کی شدت اور سن سٹروک کے واقعات میں اضافے کی بات کی جا رہی اس کے ساتھ ساتھ مون سون کی بارشوں اور گلیشئیر کے پگھلنے سے سیلابوں کی شدت میں اضافے کے خدشہ کا بھی ذکر کیا جا رہا ہے ۔