تیل کی قیمتوں میں کمی

گزشتہ روز روس کے دارالحکومت مسکو سے تجارتی سامان لیکر مال بردار گاڑیاں طورخم کے راستے پاکستان میں داخل ہوگئیں۔ماسکو سے دھاگہ اور چنا لیکر 2مال بردار گاڑیاں طورخم سرحد سے پاکستان میں داخل ہوئیں جبکہ اس سے پہلے ایل پی جی کی کھیپ ازبکستان سے ٹرکوں کے ذریعے افغانستان کے راستے پاکستان طورخم بارڈر پر پہنچی، کارگو 21 ایل پی جی ٹرکوں پر مشتمل تھی اوریہ پہلے مرحلے میں روس سے خریدے گئے 110,000 ٹن ایل پی جی کا حصہ ہے جس سے نہ صرف ملکی معیشت مستحکم ہونے میں مدد ملے گی بلکہ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافے کا باعث بنے گا۔ پاک روس تجارتی معاہدہ مارچ 2023میں ماسکو میں طے پایا تھا۔جس کے تحت پاکستان روس کو چاول، دوائیں، پھل اور گھیوں کے سامان سمیت 26اشیا برآمد کرے گا جبکہ روس سے پیٹرولیم مصنوعات ایل این جی، گندم اور دھاگے سمیت 11اشیا درآمد کی جائیں گی۔بہت سے ممالک کو توانائی کے بحران کا سامنا ہے۔ توانائی کے پائیدار ذرائع آج کی دنیا میں بہت اہم ہیں، اور ان تک رسائی کسی بھی ملک کی معیشت کو بہتر بنا سکتی ہے۔ کسی قوم کی ترقی کا ایک اہم جز و توانائی کا ایک قابل اعتماد ذریعہ ہے۔ متعدد اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اگر توانائی تک سستی رسائی کو آسان بنایا جائے تو انسانی ترقی اپنے عروج پر پہنچ سکتی ہے۔ دنیا کے توانائی کے وسائل کے سنگم پر واقع پاکستان کو سٹریٹجک فائدہ حاصل ہے۔ اس کے باوجود، پاکستان کی توانائی کی صورتحال مثالی نہیں ہے کیونکہ ریاست درآمدات پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے اور اس کے پاس توانائی کے اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ خود کو برقرار رکھ سکے۔ توانائی کی بڑھتی ہوئی طلب اور توانائی کے اخراجات میں تبدیلی کے نتیجے میں درآمدی اخراجات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔یہ دیکھتے ہوئے کہ توانائی ملکی معیشت کا ایک اہم جزو ہے، پاکستان کی موجودہ صورتحال توانائی کے عدم تحفظ کے طور پر سب سے بہتر ہے۔ پاکستان اپنی توانائی کی استعداد پر قابو پانے کے لیے علاقائی رابطوں کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ تیل ، ایل این جی اور دیگر پیٹرولیم مصنوعات کے لیے توانائی سے مالا مال خلیجی ریاستوں جیسے ، قطر اور کویت پر بھی انحصار کرتا رہا ہے۔ تاہم، قریبی ، روس اور ایران کو تلاش کرنا سستا ہے جبکہ گزشتہ دنوں پاکستان اور روس کے درمیان تیل و گیس معاہدوں پر اتفاق ہو گیا ہے۔ روس کے وزیر توانائی نکولے شو یکنوف کی قیادت میں آنے والے وفد نے وزراء کی سطح کے مذاکرات کو اطمینان بخش قرار دیا۔ معاہدوں کے بعد توانائی تیل اور گیس کی فراہمی کے لئے دونوں ملک ورکنگ گروپ بنا رہے ہیں۔ ان ور کنگ گروپوں میں ان شرائط کو ترتیب دیا جائے گا جن کے تحت پاکستان روس سے توانائی مصنوعات حاصل کرے گا۔ سب سے اہم بات یہ کہ اس بنیادی کام کے بعد دو طرفہ تجارت و تعاون کے امکانات پہلے سے روشن نظر آنے لگے ہیں۔ پاکستان نے روسی وفد کو تیل و گیس کی رسد و طلب کا ڈیٹا فراہم کیا ہے۔ صدر پوٹن نے اس موقع پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیا اور عالم اسلام میں روس کا اہم شراکت دار ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کو مزید مستحکم بنایا جائےگا پاکستان میں تیل اور پیٹرولیم مصنوعات مہنگی قیمت پر فروخت کی جاتی ہیں حالانکہ سبسڈی اور موخر ادا ئیگی کے ماڈیولز پر درآمد کیے جاتے ہیں۔ اس سے حکومت وقت زیادہ فائدہ اٹھانے والی ہے کیونکہ وہ ٹیکسوں کی شکل میں حاصل ہونے والی آمدنی اور سرچارجز کی زر کثیر کماتی ہے کیونکہ یہ تیل اسے ریونیو کا سب سے بڑا حصہ فراہم کرتا ہے۔ نتیجے کے طور پر یہ پیداوار کی لاگت کو متاثر کرتی ہے اور قیمتوں میں اضافے کے علاوہ بر آمدات غیر مسابقتی ہونے کا باعث بنتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جب بھی پیٹرولیم و ایل این جی کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو ٹرانسپورٹ کرائیوں اور مہنگائی میں اس تناسب سے اضافہ کر دیا جاتا ہے مگر جب یہ قیمتیں اعتدال پر آتی ہیں تو پھر اس تناسب سے ٹرانسپورٹ کرائیوں اور مہنگائی میں کمی نہیں کی جاتی جو ایک بہت بڑا المیہ ہے ۔ تاہم یہ ایک مثبت پیش رفت ہے کہ حال ہی میں حکومت نے تیل کی قیمتوں میں جو کمی کی ہے اس سے عوام کو ریلیف ملنے میں آسانی فراہم ہوگئی ہے ۔