2023 انسانی تاریخ کا گرم ترین سال

اقوام متحدہ کے سربراہ نے خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی شدت کے مزید مظاہر کرہ ارض کے ہر کونے میں رونما ہونے کو تیار ہیں۔ سمندروں کے درجہ حرارت میں ریکارڈ اضافہ بھی گرمی کی شدت کو مزید بڑھا رہا ہے۔اقوام متحدہ کے سربراہ انٹونیو گوٹیرش نے خبردار کیا کہ عالمی سطح پر ماحولیاتی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ ان کی طرف سے یہ انتباہ یورپی یونین کی طرف سے موسمیاتی نگرانی کے ادارے کے اس انکشاف کے بعد جاری کیا گیا، جس کے مطابق 2023 انسانی تاریخ کا گرم ترین سال ہونے کا امکان ہے۔ گوٹیرش نے کہا،''ہمارے سیارے نے ابھی کھولتا ہوا، ریکارڈ پر گرم ترین موسم گرما برداشت کیا ہے۔ ماحولیاتی نظام کی ٹوٹ پھوٹ شروع ہو چکی ہے۔یورپین مانیٹر کے مطابق گزشتہ تین مہینوں میں ایشیا، افریقہ، یورپ اور شمالی امریکہ میں گرمی کی لہریں، خشک سالی اور جنگل کی آگ نے تباہی مچائی، جس سے معیشتوں، ماحولیاتی نظام اور انسانی صحت پر ڈرامائی اثرات مرتب ہوئے۔ یورپی یونین کی کوپرنیکس کلائمیٹ چینج سروس (C3S) نے ایک نئی رپورٹ میں بتایا کہ جون، جولائی اور اگست میں اوسط عالمی درجہ حرارت 16.77 ڈگری سینٹی گریڈ رہا، جس نے 2019 کے 16.48 ڈگری سینٹی گریڈ کے پچھلے ریکارڈ کو توڑ دیا۔ C3S کی ڈپٹی ڈائریکٹر سمانتھا برجیس نے اے ایف پی کو بتایا،''ہم نے ابھی جو تین مہینے گزارے ہیں وہ انسانی تاریخ کے تقریبا 120,000 سالوں میں سب سے زیادہ گرم ہیں۔ گزشتہ مہینہ ریکارڈ کے لحاظ سے گرم ترین اگست تھا اور جولائی 2023 کے علاوہ دیگر تمام مہینوں سے زیادہ گرم تھا۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ سائنسدانوں نے طویل عرصے سے خبردارکر رکھا ہے کہ ہماری ماحول کے لیے ضرر رساں ایندھن کی لت کیا جنم دے گی۔انہوں نے مزید کہاماحولیاتی بگاڑ، ہماری مقابلہ کرنے کی صلاحیتوں سے زیادہ تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ موسمیاتی شدت کے مظاہر کرہ ارض کے ہر کونے سے ٹکرا رہے ہیں۔عالمی سطح پر سمندروں کی سطح کے ریکارڈ بلند درجہ حرارت نے پورے موسم گرما میں گرمی کو بھڑکانے میں اہم کردار ادا کیا۔ گرم سمندری لہریں شمالی بحر اوقیانوس اور بحیرہ روم سے ٹکراتی رہیں۔ سمانتھا برجیس نے کہا کہسطح سمندر پر موجود اضافی گرمی کو دیکھتے ہوئے، امکان یہ ہے کہ 2023 ریکارڈ پر گرم ترین سال ہو گا۔سائنسدانوں کے مطابق سمندروں نے صنعتی دور کے آغاز سے ہی انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی 90 فیصد اضافی حرارت جذب کر لی ہے۔یہ اضافی گرمی خاص طور پر تیل، گیس اور کوئلہ جلانے سے موحولیات کے لئے ضرر رساں گرین ہاﺅس گیسوں کے طور پر جمع ہوتی رہتی ہیں۔ قطبی خطوں سے ہٹ کر اس مرتبہ 31 جولائی سے 31 اگست تک کے ایک ماہ کے دوران موسم گرما میں ہر روز عالمی سطح پر سمندر کی سطح کا اوسط درجہ حرارت 2016 کے ریکارڈ سے تجاوز کر گیا۔ اور ساتھ ہی یہ صورتحال نازک ماحولیاتی نظام میں خلل ڈالتی ہے۔ C3S نے کہا کہ قطب شمالی میں سمندری برف سال کے اس وقت کے لیے ریکارڈ کم سطح پر رہی جس کی ماہانہ قدر اوسط سے 12 فیصد کم ہے۔ یہ 1970 کی دہائی میں قطب شمالی کے سیٹیلائٹ مشاہدات شروع ہونے کے بعد سے کسی بھی اگست کے مہینے میں اب تک کی سب سے بڑی منفی تبدیلی ہے۔C3S کے یہ نتائج دنیا بھر میں سیٹلائٹ، بحری جہازوں، ہوائی جہازوں اور موسمی سٹیشنوں سے اربوں پیمائشوں کا استعمال کرتے ہوئے کمپیوٹر سے تیار کردہ تجزیوںپر مشتمل ہیں۔ پراکسی ڈیٹا جیسے درختوں کے حلقے اور برف کی تہہ سائنسدانوں کو 19ویں صدی کے وسط میں ماحولیاتی ڈیٹا کے باقاعدہ اندراج شروع کیے جانے سے قبل کے اعداد و شمار کے ساتھ جدید درجہ حرارت کا موازنہ کرنے کا موقع دیتے ہیں۔جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو موسمیاتی تبدیلی سے یہ کہیں زیادہ متاثر ہے اور ہر سال شدید گرمی کی صورت میں یہاں پر خشک سالی اورسیلابوں جیسے مسائل کا سامنا رہتا ہے جو جانی اور مالی نقصان کا باعث بھی بنتا ہے ۔