چند ناگزیر اقدامات 

حالیہ دنوں افغانستان کے سرحدی علاقے نورستان سے چترال کے علاقہ جنجریت کوہ میں دراندازی اور چترال سکاوٹس کی دو پوسٹوں پر حملوں کی خبر ملکی اور بین الاقوامی میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔جنجریت کوہ لوئر چترال کی تحصیل دروش کی حدود میں واقع ایک دور افتادہ اور پسماندہ سرحدی علاقہ ہے۔یہاں سے افغان صوبہ نورستان دو تین گھنٹے کی پیدل مسافت پر ہے۔جنجریت کا بیشتر حصہ سابق والی چترال کے بھتیجے شہزادہ سلیمان کی جاگیر ہے۔اس علاقے کی آبادی پانچ ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔پہاڑوں کے دامن میں واقع اس دور افتادہ علاقے کے لوگوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کرنے کا سہرا سابقہ ایم پی اے بیگم شہزادہ سلیمان کے سر ہے۔چونکہ بھٹو خاندان کے ساتھ بیگم سلیمان کے خاندانی مراسم تھے۔اس لئے بیگم سلیمان نے ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں اس علاقے کے لئے کئی ترقیاتی منصوبے منظور کرائے جن میں آٹھ کلو میٹر جیپ ایبل سڑک، ہائی سکول، مدرسہ، بجلی گھر اور سیکورٹی پوسٹ شامل ہیں۔ بیگم سلیمان کی کاوشوں کی بدولت آج مہنگائی کے اس دور میں بھی جنجریت کے لوگ مفت بجلی کی سہولت سے استفادہ کر رہے ہیں۔اور ان سے ایک روپیہ بھی بل کی مد میں وصول نہیں کیا جاتا۔بیگم سلیمان پاکستان پیپلز پارٹی کے بانیوں میں شامل ہیں۔ چترال میں ڈگری کالج کے قیام، بجلی گھر کی تعمیر، راشن کارڈ متعارف کرانے کے علاوہ لواری ٹنل پر کام شروع کروانے میں بھی ان کی کاوشیں شامل ہیں انہوں نے سینکڑوں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ملازمتیں دلوائیں۔دیکھا جائے تو یہ علاقہ ہر لحاظ سے ملک کے دیگر علاقوں سے اگر آگے نہیں تو پیچھے بھی نہیں اور یہاں پر زندگی کی بنیادی سہولیات ہر فرد کو میسر ہیں ۔اس سلسلے میں یقینا بیگم سلیمان کا بڑا کردار ہے جنہوں نے یہاں کے رہنے والوں کو سیاسی شعور بھی دیا اور بنیادی سہولیات بھی ۔ان خدمات کے صلے میں انہیں مادر چترال کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ انہیں بھی یہ شکایت ہے کہ حکومت کی طرف سے جغرافیائی اہمیت کے اس علاقے کی تعمیر و ترقی ،عوام کو بنیادی شہری سہولیات کی فراہمی پر جس قدر توجہ دینا چاہئے تھی وہ نہیں دی گئی۔ جنجریت اور وادی کالاش کے بالائی علاقے قدرتی حسن سے مالا مال ہیں ۔یہاں کئی سیاحتی مقامات ہیں وہاں تک سڑک اور دیگر سہولیات اگر بہم پہنچائی جائیں تو سالانہ ہزاروں کی تعداد میں ملکی اور غیر ملکی سیاح اس خوبصورت علاقے کی سیاحت کے لئے آسکتے ہیں جس سے لوگوں کو روزگار کے مواقع ملیں گے ان کا معیار زندگی بہتر ہوگا۔حالیہ واقعات نے پاکستان کے اس پر امن ترین علاقے میں حفاظتی اقدامات کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے اور یہاں پر سیاحت کے فروغ کیلئے بھی یہ ضروری ہے ۔ چترال کے عوام کو بالعموم اورجنجریت کوہ ، ارسون، بمبوریت، بیریر، رمبور، شیخ سلیم اور دیگرعلاقوں میںسیاحت کے فروغ اور معاشی سرگرمیوں کے فروغ کیلئے یہاں پر مثالی امن کو مسلسل یقینی بنانے کیلئے مزید ٹھوس اقدامات ناگزیر ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اب تک اس علاقے کو ملک کے پر امن ترین علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے اور یہاں پر جرائم کی شرح بھی نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ یہاں کے لوگ بہت سادہ اور پر امن مزاج رکھنے والے ہیں۔یہاں پر اگر سیاحت کے فروغ کے لئے تمام سہولیات اور ذرائع کی دستیابی کو ممکن بنایا جا سکے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ علاقہ نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر سیاحت کا مرکز بن جائے۔