ثقافتی احیا میں خواتین کا کردار

ثقافتی یلغار کی اصطلاح ایک عرصے سے استعمال ہو رہی ہے اس کا عام طور پریہ مفہوم لیا جاتا ہے کہ کوئی قوم اپنا ثقافتی ورثہ چھوڑ کر فلموں، ڈراموں میں دکھائی جانے والی دوسری اقوام کا طرز زندگی اختیار کرتی ہے۔ثقافت صرف رسومات، نشست و برخاست اور کھیل تماشوں تک محدود نہیں، اس میں کسی قوم اور قبیلے کا رہن سہن، برتاو، پوشاک اور روایتی خوراک بھی شامل ہیں۔آج سے پچاس سال قبل ہمارے گھروں میں روایتی کھانے پکائے جاتے تھے۔زیادہ تر طعام دودھ سے بنائے جاتے تھے۔جن میں پنیر، دیسی گھی، مکھن، کھیر، گھی سے بنا نمکیں حلوہ، تروق موژی، دہی اور گھی کی مرکب روٹی، انڈوں سے تیار ہوئے والے طعام اور گوشت سے بنائے جانے والے کھانے شامل تھے۔خوردونوش کا 95 فیصد سامان گھر میں ہی موجود ہوتا تھا صرف چائے اورنمک بازار سے منگوائے جاتے تھے۔آج دیسی خوراک متروک ہو چکی ہیں۔دیہات میں بھی شادی بیاہ کے علاوہ گھروں اور روزانہ کی بنیاد پر چاول، فارمی مرغیوں کا گوشت، بناسپتی گھی، بازاری مصالحوں کا استعمال عام ہو گیا ہے۔بازار کے ملاوٹی اور غیر معیاری کھانے استعمال کرنے کی وجہ سے مختلف بیماریاں پھیل رہی ہیں۔خوش قسمتی سے ہماری نوجواں نسل کو دیسی اور خالص کھانوں کی افادیت کا احساس ہو گیا ہے گزشتہ چند سالوں سے چترال اور گلگت بلتستان میں روایتی کھانے کے ہوٹل کھل چکے ہیں جہاں خواتین روایتی کھانے خود تیار کرتی ہیں۔ان روایتی کھانوں کی مقبولیت میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔کسی کے گھر مہمان آجائیں تو قدیم اور روایتی کھانے آرڈر پر تیار کئے جاتے ہیں۔جس سے ایک طرف صحت افزا خوراک کارجحان بڑھ رہا ہے تو دوسری جانب روزگار کے مواقع بھی پیدا ہو رہے ہیں۔بازاری خوراک چٹ پٹے مصالحہ جات سے بھرپور ہوتی ہیں لیکن چترال اور ہنزہ کے روایتی پکوانوں میں صرف گھروں میں تیار کئے گئے مصالحے اور پودینے استعمال ہوتے ہیں۔ ان میں بکری، بھیڑ، خوش گاﺅ اور دیسی مرغی کا گوشت، اخروٹ اور خوبانی کا تیل استعمال ہوتا ہے۔اکثر گاہک روایتی کھانے مول کی فرمائش کرتے ہیں جو دودھ، چینی اور سیب اور سرکے کی آمیزش سے بنایا جانے والا مقامی پنیر ہے۔ اس کے ساتھ غلمندی بھی لوگ بہت شوق سے کھاتے ہیں جو دہی اور میوے سے بھری پتلی روٹی کا سینڈوچ تھا۔ہنزہ میں ملیکہ سلطانہ اور راشدہ بیگم نے 2016 میں اپنا ریسٹورنٹ کھولا۔ گلمت گاﺅں کا یہ ریسٹورنٹ قراقرم ہائی وے کے ایک خوبصورت موڑ پر واقع ہے۔سلطانہ نے بتایا کہ مقامی پکوان کا رواج تقریبا ختم ہو چکا تھا کیوں کہ کوئی یہ کھانے نہیں پکا رہا تھا۔ پھر ہم نے آغاز کیا اور اب اور خواتین بھی شامل ہو چکی ہیں، اور لوگ یہ کھانا کھانے آتے ہیں۔ ہنزہ وادی میں خواتین ریسٹورنٹ چلا رہی ہیں، دکانیں چلا رہی ہیں اور لکڑی کا کام تک کر رہی ہیں۔ہر تعلیم یافتہ مرد اور خاتون کو سرکاری یا پرائیویٹ اداروں میں ملازمت کے مواقع نہیں مل سکتے۔اسی بات کااحساس کرتے ہوئے چترال اور گلگت کے بیشتر علاقوں میں خواتین نے ریسٹورنٹ، سلائی کڑھائی کے مراکز اور کاروبار شروع کیا ہے۔جو پورے ملک کی خواتین کے لئے رول ماڈل ہے۔اور صدیوں پرانی ثقافت اور اقدار کی بحالی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔اور دیکھا جائے تو موجودہ معاشی مشکلات کے دور میں گھریلو دستکاری جیسی سرگرمیاں یقینی طور پر معاشی مشکلات سے نجات کا باعث بھی بن سکتی ہےں اور اس سے ثقافت کی حفاظت بھی ہوگی۔