لذت زندگی ، مبارک باد

غالب نے کہا تھا کہ
کلکتے کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں
 اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے
 اور غالب یہ کہتے ہوئے اس لئے حق بجانب تھے کہ وہ کلکتہ سے ہو آئے تھے،سوچتا ہوں کہ میں تو ’غرناطہ‘ کبھی نہیں گیا، توپھر عارف افضال عثمانی کی سفری کہانی”قرطبہ اداس ہے“ پڑھتے ہوئے مجھے ایساکیوں لگا جیسے ایک نہیں کئی ایک تیر میرے جگر میں مسلسل پیوست ہو رہے ہیں اور قدم قدم پرآنکھوں میں دھواں بھرتا جارہاہے، لیکن رکئے! جب میں یہ کہتا ہوں کہ میں غرناطہ کبھی نہیں گیا تو شاید یہ پورا سچ نہیں ہے، کیونکہ غرناطہ تو میں کئی بار جا چکا ہوں،جانے کتنی صدیوں سے جارہا ہوں، یہ غرناطہ تو میرا حافظہ ہے ذر ا کہیں ذکر چھڑا تو پورا بدن ایک سُرکی ہوئی ستار کی طرح درد بھرے نغمے اگلنے کےلئے بے تاب ہو جاتا ہے، اورپھر میں خود کو ان محلّات کی تعمیر کے زمانے میںکسی ایسے مزدور کے روپ میں دیکھنے لگتاہوں جو تھکن اتارنے کےلئے کشتی والوں کی طرح اس وقت تک گاتا رہتا ہے جب تک محلات کے ماتھے پر ”لا غالب الااللہ“ کا کلمہ نہیں لکھا جاتا۔یہ سفری کہانی پڑھتے ہوئے مجھے لگا کہ میں بھی ان کے ساتھ ساتھ الحمرا کے حسن سے خود کو شرابور کر رہا ہوں،عظمت ِ رفتہ سے خود کو بھگو رہا ہوں زرد اور نارنجی رنگ کے مالٹوں لیموﺅںاور سنگتروں کی چھاﺅں چھاﺅں چلتا ہوا اس زمانے میں پہنچ جاتا ہوں جب غرناطہ کی مساجد سے بلند ہو نے والی اللہ اکبر کی پر شوکت آواز گونجتی تھی۔ اب آپ سے کیا پردہ، پہلی بار ایک لعبت ِ پشاور کا ہاتھ پکڑتے ہوئے میں نے سرگوشی میں ا±سے بھی کہا تھا ” اے ہسپانوی لیموں کی سی رنگت والی لڑکی،ت±و مجھے بہت اچھی لگتی ہے“ اس لئے جب عارف افضال عثمانی نے مزے لے لے کر مالٹوں اور سنگتروں کے ساتھ ہسپانوی لیموﺅں کی بات کی تو میں اپنی کٹھی میٹھی محبتوں کے زمانوں کی ساری سرشاری سمیت ان کے ساتھ ہی ہو لیا تھا۔ اسی طرح جس وقت عارف افضال نے سفری کہانی کا رخ امریکہ کی طرف موڑ کر ’کولمبس کا شکریہ‘ ادا کیا اور اس کی دریافت ”امریکہ“ کو انسانیت اور محبت کی سر زمین کہتے ہوئے اِسے رہنے کےلئے ایک بہترین ملک قرار دیا، تو مجھے اچھنبا بھی ہوا اور بہت اچھا بھی لگا کیونکہ آج کا فیشن تو اس سرزمین سے فائدہ بھی اٹھانا ہے اور منہ اٹھا کر اس ملک کو برا بھلابھی کہنا ہے ایسا شاید پہلی ‘ بار ہوا ہے کہ ایک بلا کے محبتی اور سچ کی طاقت پر مکمل یقین رکھنے والے ایک دوست نے یہ لکھ کر میرے ذہن سے بھی ایک بہت بڑا بوجھ اتار دیا ہے کیونکہ میرے جگر کا ٹکڑا ،افراز علی سیّد بھی اسی سرزمینِ محبت میں رہتا ہے اورطالع آزما منچلوںکی باتیں سن سن کر مجھے لگتا تھا کہ شاید میرا یہ فیصلہ زیادہ درست نہیںہے، مگر اب نہیں سو وہ بھلے سے کولمبس کا شکریہ ادا کریں میں تو کہوں گا عارف افضال جی! آپ کا شکریہ۔ لگے ہاتھوں ایک راز کی بات بتاﺅںکہ ”مجھے وہ لکھنے والا بے حدمتاثر کرتا ہے جو لکھتے ہوئے متاثر کرنے کی قطعاً کوشش نہیں کرتا “اس سفری کہانی میں سادہ سادہ چھوٹے چھوٹے فقروں میں جب سفر کی جزئیات پڑھتا ہوں تویقین مانیں یہ کہانی میرے دل کو کہیں بہت اندر سے چھوتی ہے،اس تحریر میں جو ایک پیارا ور دلارسا ہے ایک اپنائیت سی ہے وہ نثر کولطافت بلکہ شعر کی سی غنائیت بخشتی ہے جو پڑھنے والے کو غیر محسوس طور پر لکھنے والے کا ہمزاد بنا دیتی ہے، اورپھر پڑھنے والااپنی ساری قلبی اور ذہنی کیفیتوں کے ساتھ مسافر کے ہمرا ہ شریک سفر ہو جاتا ہے گویاوہ لکھنے والے کے ساتھ ہی سوتا جاگتا، دوڑتا پھرتا،ہنستا روتا اور سکھی دکھی ہوتا رہتا ہے مجھے یاد ہے جب بچپن میںرات کے وقت والدہ مرحومہ کہانی سناتیں توہر چند آنکھیں نیند سے بوجھل ہو جاتیں مگر کہانی میںمیری دلچسپی مجھے سونے سے روکے رکھتی اوراگر کبھی اسی عالم میں سو بھی جاتا تو نیند میں خود کوکہانی والی پریوں کے باغات اور محلات میں پاتا اور یوںوالدہ سے سنی ہوئی کہانی مجھے جب زندہ اور سانس لیتی نظر آنے لگتی تو ایک بے بدل سی سرخوشی اور وارفتگی مجھے جاگنے کے بعد بھی دیر تک گھیرے رکھتی تھی۔ اب بہت زمانوں کے بعد اس سفری کہانی نے ایک بار پھر مجھے ٹائم مشین میں بٹھا کر اندلس کے ان ساحلوں پر پہنچا دیا،جب سانس لیتی کہانی کی سماعتوں میں پہلی بار یہ آواز گونجی تھی۔کشتی والو سب کشتیاں جلا دو اور اس سفری کہانی میں جس وقت عارف افضال نے بوجوہ جبل الطارق جانے کا ارادہ مو¿خر کر دیا تھا،تو میں ان سے انگلی چھڑا کر وہاں تک اکیلا ہی بھاگتا چلا گیا۔بس کیا بتاﺅں کہ یہ سفری کہانی مجھے اپنے بازﺅں میں بھر کر کن زمینوں آسمانوں اور جہانوں میںلئے لئے پھرتی رہی اور اب میں اپنے تئیں محض اتنا ہی کہہ سکتا ہوںکہ یہ جو عارف افضال نے دوبارہ قرطبہ کی اور جانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے نا،تو اب کے میں ان کے ساتھ ضرور جاﺅں گا اوروہاں موجود کسی بھی سکیورٹی گارڈ کی پروا کئے بغیر جہاں جہاں ہمارا دل چاہے گا ہم قادر ِ مطلق کے آگے جھک جائیں گے خالق ِ ارض و سما کو سجدہ کریں گےاور’یاس یگانہ چنگیزی‘کے شعر کے پہلے مصرع، لذت زندگی مبارکباد، میں ”زندگی“ کے لفظ کو ”بندگی“ سے بدل کر یہاں وہاں بے خوف ہو کر بہ آواز ِ بلند اک دوجے سے کہیں گے۔
 لذت ’بندگی‘ مبارکباد
 کل کی کیا فکر ؟ ہر چہ باد ا باد