ہے دیکھنا کہ دھند کے اس پار کون ہے 

پاکستان ٹیلی وژن نیشنل کا بھلا ہو جو گاہے گاہے کچھ پرانے ڈرامہ سیریلز یا شوز یادش بخیر(ری پیٹ ٹیلی کاسٹ) کے طور پردکھا دیتا ہے اس طرح نہ صرف بیتا ہوا وہ دور یاد آتا ہے بلکہ بچھڑے ہوئے کچھ مہربان چہرے بھی آنکھوں میں دھواں بھر دیتے ہیں، گزشتہ شام ایسا ہی ہندکو زبان کا ایک ادبی شو نشر ہوا جس کے کچھ کلپس اور سکرین شاٹس مجھے برخوردار وجاہت نذیرتبسم نے بھیجے، یہ شو دراصل ایک تنقیدی نشست پر مشتمل تھا جس کی صدارت خاطر غزنوی کر رہے تھے‘ نظامت خالد سہیل کی تھی جب کہ غزل مقبول اعجاز اعجازی اور افسانہ یوسف عزیز زاہد کا تھا، گفتگوکرنے والے احباب میں پروفیسر تنویر احمد اور سجاد بابر بھی تھے،گویا اس مختصر سی اکٹھ میں سے چار دوست اب ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں، اور یہ وہی دوست ہیں جن کی وجہ سے دبستان پشاور میں کبھی بہت رونقیں تھیں ،پاکستان ٹیلی وژن کے مختلف مراکز سے ماضی میں بہت عمدہ ادبی پروگرام ہوتے رہے ہیں ، جن میں سے کچھ پروگرام سب مراکز سے نشر کئے جاتے تھے چنانچہ ایک مقبول پروگرام ماہنامہ کے چند ایپی سوڈ اسّی کی دہائی میں پشاور سے بھی نشر ہوئے تھے، جن کی کمپیئرنگ کا اعزاز مجھے حاصل ہوا تھا ہر چند ابھی میدان ادب میں آئے ہوئے مجھے کچھ زیادہ وقت نہیں ہوا تھا تاہم ریڈیو کا تھوڑا بہت تجربہ تھا،پھر زیادہ اعتبار تو پی ٹی وی پشاور مرکز کے نئی عمارت میں منتقل ہونے کے فوراً بعد پشاورمرکز سے نشرہونے والے پہلے کل پاکستان اردو مشاعرہ کی نظامت سے حاصل ہوا جو بعد کے ان گنت ادبی شوز کی میزبانی کے وقت کام آیا،خصوصاً جب پشاور مرکز سے میں نے ’ بزم ‘کے نام سے ادبی شو شروع کیا۔البتہ پشتو اور ہندکو زبان میں مشاعرے پہلے دن سے ہی نشر ہوتے رہے تاہم زیادہ تر موضوعاتی ہوتے تھے، نسیم جان مرحوم نے بابائے ہندکو مختار علی نیر کے ساتھ مل کر ہندکو لوک ادب کو تمثیلی انداز میں پیش کیا تو بہت مقبول ہوا،ان کے میوزک شوز میں بھی ادبی شخصیات سے گفتگو کا ڈول ڈالا جاتا رہا، میں نے ان کے ہندکو شو ” لشکارے“ کی کمپیئرنگ کی تھی اس شو میں ادبی شخصیات کا انٹرویو نشر کیا جاتا تھا،ایسی شخصیات میں قتیل شفائی، رضا ہمدانی،خاطر غزنوی، اشرف بخاری ،محسن احسان،اور یوسف رجا چشتی سمیت کئی زعما شامل ہیں یہ سلسلہ گاہے گاہے دوسرے شوز میں بھی جاری رہا، معروف پروڈیوسر اور دوست عزیز عتیق احمد صدیقی کے ہند کو ٹاک شوز میں بھی ادبی شخصیات کو لے کر کسی ایک موضوع پر مذاکرہ کا اہتمام بھی ہوا تھا اور ان شوز میں موسیقی کے شوز میں گیتوں کے ساتھ ساتھ غزل کی گائیکی کو بھی شامل کیا جاتا اور غالباً پہلی بار ا±س زمانے میںان غزلوں اور گیتوں کی ویڈیوز بھی بنیں ،جس کے لئے ہم نوشہرہ کے قریب باغات سے گھرے ہوئے ایک گاو¿ں ” ولئی “ جاتے اور باغات میںگیتوں کی فلمبندی کیا کرتے تھے۔ ایک بار معروف پروڈیوسراور دوست عزیز طارق سعید نے ہندکو شوز کے لئے آئیڈیا مانگا ان دنوں وہ پروگرام منیجر تھے، میں نے انہیں اس حوالے سے ایک الگ سے آئیڈیا دیا کہ بجائے ہر ہفتے ایک ہی شو نشر ہو ہم ہر ہفتے ایک مختلف شو نشر کریں گے، ایک ہفتہ سماجی موضوع پر مذاکرہ ہو گا ایک ہفتہ غزل کا مشاعرہ کریں گے ایک ہفتہ ادبی شخصیت کے ساتھ گفتگو اور میوزک اور ایک ہفتہ ہم تنقیدی نشست کا اہتمام کریں گے، باقی تو ٹھیک تھا مگر حلقہ ارباب ذوق اور اردو پشتو ہندکو تنظیموں کی طرح ٹی وی پرتنقیدی نشست اس لحاظ سے قدرے مشکل کام تھا کہ گفتگو کو مقررہ وقت میں سمیٹنا ممکن نہیں ہو تا ، مگر میری خواہش پر انہوں نے حامی بھری اورپھرو ہ شو کئی حوالوں سے بہت کامیاب اس لئے بھی ہوا کہ میں نے اپنی بجائے ہر تنقیدی نشست کے لئے الگ الگ میزبان اور صدر کو چنا،چنانچہ اس ایک شو میں بیسیوں احباب کو میں نے نہ صرف ٹی وی پر متعارف کرایا بلکہ ان کی تخلیقات بھی نشر ہوئیں اور کئی دوستوں نے اپنی ٹی وی کمپیئرنگ کا آغاز بھی اسی شو سے کیا،ان مرد اور خواتین قلمکاروں میں پشاور کے علاوہ کوہاٹ، ڈیرہ اسماعیل خان اور ہزارہ کے جواں فکر ادبی دوست بھی شامل ہیں ،اور گزشتہ شام پی ٹی وی نیشنل سے نشر ہونے والا تنقیدی شو بھی پشاور ٹی وی مرکز کی انتظامیہ نے اسی ادبی گل کتھ “ سے ’ ری پیٹ ٹیلی کاسٹ‘ کیا جسے دیکھ کر ” دل کو کئی کہانیاں یادسی آ کے رہ گئیں“ لیکن اب پی ٹی وی کی مصروفیات بڑھ گئی ہیں یا پھرکل کی طرح کے باذوق پیشکار کم کم میسر ہیں کیونکہ اب اردو یا دیگر پاکستانی زبانوں کے ادبی شوز بہت کم نشر ہوتے ہیں ، البتہ ایک بہت عمدہ اردو کا ادبی شو ” رات گئے “ اپنے بہت ہی باکمال صاحب مطالعہ ا ور احمد فراز اور دیگر زعما کی محافل میں بار پانے اور ان کی محبتیں اور شفقتیں حاصل کرنے والے صدارتی ایوارڈ یافتہ میزبان شمعون ہاشمی کے ساتھ پی ٹی وی ہوم سے نشر ہوتا ہے، تخلیق، تنقید اور تحقیق کے اطراف میں گفتگو کا یہ ایک معیاری ادبی شو ایک عرصہ سے جاری ہے، اب کے پی ٹی وی انتظامیہ کا ایک احسن فیصلہ اسے دوسرے مراکز سے بھی نشر کرنے کا ہوا سو پشاور مرکزکے حصے میں بھی چار پروگرام آئے، سید شمعون ہاشمی نے خیبر پختونخوا میں نثر، شاعری، اور دو عالمی شہرت یافتہ مقبول ادبی زعما احمد فرازاور غلام محمد قاصر کے حوالے سے یہ پروگرام ترتیب دئیے جنہیں جواں سال و جواں فکر معروف پیشکار سید ذیشان فضل نے سٹوڈیوز کی بجائے خیبر پختونخوا کی ثقافت کے پیش نظر معروف ” سیٹھی ہاو¿س “ میں ریکارڈ کیا، ان شوز میں سینئر اور جواں سال ادبی دوستوں نے بہت اچھی گفتگو کی، شمعون ہاشمی کے اس شو میں گفتگو کے ساتھ موسیقی کا بھی حصہ ہو تا ہے اس لئے امید ہے کہ سیٹھی ہاﺅس کے در و دیوار بلبل ہزارہ رافعہ بانو ، اردو ہندکو اور پشتو کی معروف فنکارہ ستارہ یونس ، ذیشان اور ایک نئی فنکارہ( یمسہ)کی مدھر آوازوں سے اب تک شرابور ہوں گے ان شوز کی ریکارڈنگزپشاور کی حالیہ ان سرد ترین دو راتوں میں نصف شب تک ہوتی رہیں جب پورا شہر ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دینے والی دھند میں لپٹا ہوا تھا وہاں سے واپسی پر فن و ثقافت کے متوالے دھند کے ±اس پار اپنے اپنے رین بسیروں کو ڈھونڈتے ہوئے شاید میری طرح امجد اسلام امجد کا شعر گنگنا رہے ہوں گے۔
مانا نظر کے سامنے ہے بے شمار دھند
ہے دیکھنا کہ دھند کے اس پار کون ہے