پہلی تاریخ اور تنخواہ دار طبقہ

ہر پہلی تاریخ کو ملک کا تنخواہ دار طبقہ خو ش ہوتا ہے کیونکہ اس کی جیب تنخواہ کے پیسوں سے گرم ہوتی ہے اور اگر کسی طبقے کا کوئی مذہبی تہوار یکم کے آس پاس پڑتا ہو اور کسی وجہ سے اسے تنخواہ نہ ملے تو اسے پریشانی ضرور ہوتی ہے اس لئے ہر محکمے کے سربراہ کو بھلے وہ نجی سیکٹر میں ہو یا سرکاری میں‘ اس ضمن میں اپنے ملازمین کی ضروریات کا خیال ضرور رکھنا چاہیے‘ ایسٹر ہو کہ کرسمس‘ عیدین ہو کہ ہولی‘ یہ سب تہوار پاکستان میں رہنے والے ہر شخص کے لئے نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ رمضان المبارک کے آخری ایام شروع ہو چکے ہیں‘ امید ہے کہ جس طرح وطن عزیز میں امسال رمضان المبارک ایک ہی دن شروع ہوا ‘بالکل اسی طرح عیدالفطر بھی ایک ہی دن ملک بھر میں منائی جائے گی۔ امن و امان کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں ایف سی میں نفری بڑھانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ صوبوں میں تعنیات ایف سی پلاٹونوں کو بار بار امن و عامہ کی ڈیوٹی پر پولیس کی معاونت کے واسطے ریونیو ڈسٹرکٹس نہ بھیجا جائے کہ اس عمل سے ان کی بنیادی ذمہ داری میں خلل پڑتا ہے‘ اس عمل کو صرف اس طریقے سے روکا جا سکتا ہے کہ پولیس کی استطاعت بڑھائی جائے اور ہر صوبہ اپنی اپنی پولیس فورس کی بھرتی میں خصوصاً نچلے کیڈرز میں بھرتی کا معیار بہتر کرے اور جس طرح افواج پاکستان کے نچلے کیڈرز میں جوان بھرتی کئے جاتے ہیں بالکل اسی طرز پر پولیس میں بھی صرف اور صرف میرٹ پر بھرتی ہو اور اس بھرتی میں کسی سیاسی مداخلت کی اجازت نہ دی جائے اور پھر ان کی ٹریننگ اور پبلک ڈیلنگ کو بھی بہتر کیا جائے تاکہ یہ اپنا کام خود بطریق احسن کر سکیں اور ضلعی انتظامیہ کو بار بار پولیس کی معاونت کے واسطے فرنٹیئر کور کی پلاٹونز کو نہ بلانا پڑے ۔گزشتہ چند دنوں میں ملک کی مختلف اسمبلیوں کے اجلاسوں میں جس افرا تفری کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا اس نے عام پبلک خصوصاً نئی جنریشن کے دل و دماغ پر یقیناً منفی تاثر چھوڑا ہوگا اسمبلی کے فلور پر اراکین نے ایک دوسرے کے خلاف جوالزام تراشیاں کی ہیں اسے دیکھ کر انہوں نے ضرور یہ سوچا ہوگا کہ کیا یہ لوگ اس ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد وطن عزیز کو مسائل کے بھنور سے نکال سکیں گے ‘ عوام کی فلاح و بہبود کے واسطے سکیمیں مرتب کرسکیں گے ‘اس قسم رویئے سے اراکین اپنی قدر عوام کی نظروں میں کھو رہے ہیں‘لہٰذا اب جبکہ انہوں نے اپنی قومی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں تو انہیں سنجیدہ ہونا پڑے گا اور ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کے برعکس انہیں اپنی تمام تر توجہ عوامی مسائل کے حل اور ملک کی ترقی بالخصوص اسے بیرونی قرضوں سے نجات دلانے پر مرکوز کرنی چاہیے‘اسی طرح وہ قوم کے سامنے اپنی اہلیت ثابت کر سکیں گے اوربیرون ملک بھی پاکستان کے وقار میں اضافہ ہوگا۔ یورپی یونین کے قانون سازوں نے تباہ شدہ ماحولیاتی نظام کو بحال کرنے کے لئے جو اہم قانون سازی کی ہے‘ یہ پیش رفت یورپ میں ماحولیاتی پالیسیوں کے خلاف کسانوں کے احتجاجی مظاہروں کے دوران ہوئی ہے‘نئے قانون کے تحت یورپی یونین کےلئے ایک ایسا ہدف مقرر کیا گیا ہے کہ انہیں 2030ءتک یورپی یونین کے کم از کم 20 فیصد زمینی اور سمندری علاقوں کو بحال کرنا ہو گا ‘موسمیاتی تبدیلی کے مضمرات سے نمٹنے کےلئے پاکستان سمیت دیگر ممالک کو بھی پالیسی سازی کرنی ہو گی ‘امید کرنی چاہئے کہ پاکستان کی باگ ڈور سنبھالنے والی حکومت اس معاملے کو اپنی ترجیحات میں محفوظ ہو سکے ۔۔
 قارئین کو یاد ہوگا کہ پچھلے برس موسیمیاتی تبدیلی کے حوالے سے 2023 کے اوآخر اور 2024 کے ابتدائی مہینوں میں بارشوں کی وجہ سے سردی کے لمبے دورانیہ کی پیشگوئی کی گئی تھی جو درست ثابت ہو چکی ہے غالب امکان یہ ہے کہ گزشتہ دور روز کی بارشوں ژالہ باری کے تناظر میں امسال رمضان شریف کا آخری عشرہ میں بھی سرد گزرے گا ‘موسیمیاتی تبدیلی نے وطن عزیز کا موسمی کیلنڈر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔