صوبائی حکومت کااہم فیصلہ 

ٹانک زام ڈیم کی فوری تعمیر وقت کا تقاضا ہے اور وزیر اعلی خیبر پختونخوا نے اس کی فوری تعمیر کا جو اگلے روز فیصلہ کیا ہے وہ ایک بروقت فیصلہ ہے اس منصوبے سے اگر ایک طرف ایک لاکھ ایکڑ اراضی سیراب ہو گی تو دوسری طرف 25.5میگا واٹ بجلی بھی پیدا ہو گی ۔ڈیرہ اسماعیل خان کی ضلعی حدود میں جنوبی وزیرستان کے سیشن جج کا، اغوا اس حقیقت کا غماز ہے کہ خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میںامن عامہ کی صورتحال فی مخدوش ہے جس کی طرف مقامی پولیس کی خصوصی توجہ درکارہے جس علاقے سے سیشن جج کو اغوا کیا گیا ہے وہ اگر ٹرائبل علاقہ نہیں تو semi tribal area نیم ٹرائبل علاقہ ضرور ہے ‘ماضی میں جب بھی اس قسم کے اغوا کے ہائی پروفائل واقعات رونما ہوا کرتے تھے تو وہ حکام کے لئے اتنا درد سر نہیں ہوا کرتے تھے کہ جتنا اب ہیں‘ اجتماعی قبائلی علاقائی مشترکہ ذمہ داری کے تحت جس علاقے میں اغوا کا واقعہ ہوا کرتا ‘علاقے کی انتظامیہ اس کے قبائلی عمائدین پر پریشر ڈال کر اگر چند گھنٹوں میں نہیں تو چند روز کے اندر مغوی کو بر آمد کر ا لیا کرتی تھی۔موجودہ حکومت کا یہ عزم قابل ستائش ہے کہ پاکستان کسی گریٹ گیم کا حصہ نہیں بنے گا اور یہ کہ وہ سی پیک کو آگے بڑھائے گا‘ یہ کہنا بھی بجا ہے کہ ہمسایہ ممالک سے مضبوط تعلقات استوار کئے جائیں گے ‘ہماری وزارت خارجہ کی ترجیحات درج ذیل ہونی چاہئیں‘ پہلی بات تو یہ ہے کہ متحرک قسم کی سفارت کاری سے ہمسایہ ممالک کو یہ باور کرایا جائے کہ جب تک پاکستان سے مل کر وہ یک جان دو قالب کی پالیسی نہیں بنائیں گے سپر پاورز اس خطے میں گریٹ گیم کھیلنے سے باز نہیں آئیں گی‘آج یقینااگر پاکستان ‘ایران اور افغانستان آپس میں ایکا کر لیتے ہیں تو یقین مانئے کوئی سپر پاور اس خطے میں گریٹ گیم نہیں کھیل سکے گی اور سب سے بڑی بات یہ ہوگی کہ اس علاقے کی دہشت گردی کے واقعات سے جان چھوٹ جائے گی ۔امریکہ کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ نہ اس کی دوستی اچھی ہے اور نہ دشمنی ‘اس کے ساتھ دو طرفہ بنیادوں پر دوستانہ تعلقات رکھنے ضروری ہوں گے جس بات سے ہمیں ہر وقت بیدار رہنا چاہیے وہ یہ ہے کہ امریکہ یہ کوشش کرے گا کہ کسی نہ کسی طریقے سے پاکستان اور روس اور پاکستان اور چین کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرے ‘لہٰذا پاکستان ہر اس قدم سے احتراز کرے کہ جو اس ضمن میں کسی غلط فہمی کا سبب بنے۔ سیاسی مبصرین کو اس بات کاخدشہ ضرور ہے کہ واضح مختلف سیاسی نظریات کے پیش نظر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان چپقلش اگر زور پکڑ لیتی ہے تو اس سے ہو سکتا ہے ملک میں کہیں پارلیمانی جمہوریت کو دھچکا نہ پہنچے لہٰذا تمام سیاسی سٹیک ہولڈرز کو برداشت اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔ جب دینا بھر میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہوتی ہے تو پاکستان میں بھی اس کی تقلید ہونی چاہئے ‘کم از کم اتنا تو ہونا چاہیے کہ ٹرانسپورٹ کے کرایے ہی کم کر دیئے جائیں اس کے ساتھ ساتھ تاجروں کو بھی از خود رضاکارانہ طور پر تمام اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں کمی کر دینی چاہئے لیکن افسوس کہ اس سے الٹ تو ہو سکتا ہے لیکن قیمتوں میں کمی کرنا ان کے لئے قابل قبول نہیں ہوتا ۔دوسری طرف پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت کی بحالی پر بھی حکومت کو توجہ دینی چاہئے ۔ تمام اراکین بھلے وہ مرکز میں ہوں یا صوبوں میں اسراف سے پرہیز کریں ‘قوم ان کے کردار کو بڑے غور سے اب کی دفعہ دیکھے گی اور اگر انہوں نے وہی لچھن دکھائے کہ جن کا مظاہرہ وہ ماضی میں کرتے آئے ہیں تو آئندہ الیکشن میں قوم پھر ان کو اہمیت نہیں دے گی ۔بھارت میں اس وقت انتخابی عمل جاری ہے ‘ اس کے ساتھ ہی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی الیکشن جیتنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ‘ بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کے خلاف ان کے زہر آلود قسم کے بیانات اسی سلسلے کی کڑی ہے ‘ان بیانات میں شدت آ رہی ہے جس سے انتہا پسندہندوﺅں کو شہہ مل رہی ہے اور بھارت کے اندر رہنے والے مسلمانوں کے خلاف جارحانہ کاروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے بھارت کی کانگریس اور بھارتی جنتا پارٹی کی جہاں تک پاکستان اور مسلم دشمنی کا تعلق ہے تو اس میں بس اس حد تک ہی فرق ہے کہ کانگریس پارٹی مسلمانوں سے میٹھی دشمنی کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوا کرتی تھی یعنی بغل میں چھری منہ میں رام اور اس پالیسی کا خالق گاندھی تھا ۔