دسترخوان‘ پشاوری عورتوں کی نفاست کا آئینہ دار

وہ حسین وقت جب پورا آسیہ گیٹ‘ سرکی گیٹ‘ سرد چاہ گیٹ‘ کوہاٹی گیٹ میں پشاوریوں کے مکانات تھے‘ اگر محلے لکھنے شروع کر دوں تو نصف طرہ باز‘ بڑھ‘ کشمیری گلی‘ صمدو کی گلی‘ محلہ خداداد‘ منڈا بیری‘ ڈھانڈیاں‘ چاندو کی گلی‘ گل بادشاہ جی کی گلی اور نہ جانے کتنی ہی گلیاں‘ بازاروں میں پشاور کے رہنے والے اپنے اپنے گھر بسائے بیٹھے تھے‘ میں نے اپنے بچپن لڑکپن میں ہر طرف ہر سو صرف پشوری زبان بولنے والوں کو اپنے ارد گرد پایا ہے‘ کچھ بہت قدیم ترین دکانوں میں نظام چاول والے کی دکان اب بھی سرفہرست ہے جو اب تک قائم ودائم ہے اور ان کے پوتے ان کو چلا رہے ہیں ورنہ تو تمام دکانیں یکسر تبدیل ہو گئی ہیں۔ میں گلی سے نکلتی تھی تو بہت بڑی چاولوں کی دکان تھی غالباً قسیم نام تھا‘ اس کے ساتھ ہی حکیم پیر محمد کی دکان تھی‘ چھوٹی سی جگہ پر ہر قسم کے سفوف‘ شربت‘ کشتے‘ پڑیوں میں ڈال کر بیچا جاتا تھا‘ ان کی شکل و صورت آج بھی میرے ذہن میں نقش ہے۔ وہاں ایک خوبصورت صحتمند شخص اون سلائیاں لے کر سوئیٹر بنتا رہتا تھا اس کا نام شریف تھا‘ ہم بچے کھڑے ہو کر اس کا یہ ہنر دیکھا کرتے تھے وہ بہت جلدی جلدی اون کی بنائی کرتا تھا‘ بعد کے دنوں میں جب میں خون نٹنگ کرنے لگی تو شریف صاحب کی بنائی ہمیشہ یادوں میں رہتی تھی 
کیونکہ مردوں کو کبھی اون بنتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ تندور تو ہر گلی اور نکر میں موجود تھے‘ اب بھی ہوں گے لیکن وہ لوگ‘ وہ ماحول یقیناً بدل گیا ہو گا‘ روغنیاں ایسی مزیدار کہ وہ واقعی روغنی نان کہلانے کے مستحق تھے‘ آج روغنی سے روغن ناپید ہو کر اور سائز چھوٹا ہوتے نہ جانے وہ کیا سے کیا ہو گئی ہے بہتر ہے اب اس کا نام بدل دیا جائے۔ صبح سویرے ہر پشاوری دستر خوان ہاتھ میں لئے تندور کی طرف اور پھر دودھی کی دکان کی طرف جاتا ہوا نظر آتا تھا‘ یہ ہم پشاوریوں کا کلچر تھا‘ دستر خوان ایسا صاف ستھرا کہ پشاوری عورتوں کی نفاست کو ظاہر کرتا تھا۔ ایک سرے سے دوسرے سرے تک ہندکو زبان کا راج تھا‘ اپنے بچوں سے ہندکو میں بات کرتے تھے اپنی زبان پر فخر کرتے تھے اور سب سے اچھا اپنی زبان کو سمجھتے تھے۔ حسن اتفاق دیکھئے آسیہ گیٹ کے اس پورے علاقے میں 
شاعروں اور ادیبوں کا راج تھا‘ گویا پشاور کے سارے لکھاری انہی گلیوں میں پیدا ہوئے پلے بڑھے اور بڑے شاعر ادیب بنے۔ عتیق صدیقی‘ جوہر میر انہی محلوں میں پیدا ہوئے‘ رضا ہمدانی کے محلے سے گزر کر ہمارا سکول آتا تھا‘ سائیں احمد علی جیسا بڑا شاعر انہی گلی محلوں کا رہنے والا تھا‘ مختیار علی نیئر جیسا بڑا ادیب شاعر بھی ان ہی بازاروں اور گلیوں کا پروردہ تھا۔ تحریک پاکستان کا نام لیں تو کئی روشن ستارے خواتین اور مرد‘ ان ہی گلی محلوں کے رہنے والے ہندکو بولنے والے تھے‘ جن کی تہذیب اور ثقافت صدیوں پرانی تھی اور وہ اپنی ثقافت کو اپنے گھروں‘ اپنے برتنوں‘ اپنے کپڑوں‘ کلاہ اور قراقلی‘ بوسکی کے ساتھ زندہ رکھے ہوئے تھے۔ ملائی نہ کھانا مزاج میں نہ تھا اور پھر روزہ ہو اور سحری میں ملائی نہ ہو یہ ناممکن تھا۔ دودھی بھی پشاوریوں کی نازک مزاجیوں کو خوب جانتے تھے‘ میں جب بھی دودھی کی دکان کی طرف نظر ڈالتی تھی وہ چمکتے ہوئے کٹوروں سے بھری ہوتی تھی‘ یہ وہ کٹورے ہوتے تھے جو سحری کو ہر ایک نے بھر کے لے جانے ہوتے تھے اور پھر دودھی کی ذہانت کی داد دینا بھی ضروری ہے کہ کس کٹورے میں کتنی ملائی ڈالنی ہے‘ اس کو سب یاد ہوتا‘ ویسے تو 
نہیں کہتے کہ پشاور کی مٹی بڑی زرخیز ہے‘ بڑے بڑے لوگوں کی سرزمین‘ شیر دل لوگوں کی سرزمین اور ہر ایک کی مدد میں پہل کرنے والے لوگوں کی سرزمین پشاور ہی تھی۔ پشاور اب بھی موجود ہے اللہ پاک اس کو سدا سلامت رکھے۔ رمضان کی لال چٹنیاں‘ ستلی میں بندھی برف‘ غصہ اور مزاج کی برہمیاں‘ ابھی تک یادوں میں گھومتی رہتی ہیں‘ کچالو پیڑا اور تخم ملنگا پینے کے شوقین پشاوری پشاور شہر میں ہر طرف بستے تھے‘ سب سفید پوش تھے‘ دھن دولت زیادہ نہ تھی لیکن فخر انبساط اور اپنے کلچر سے محبت کا عالم بہت زیادہ تھا‘ ایک سرے سے دوسرے سرے تک راستے میں درجنوں مکانات اور ان مکانوں میں لوگ رہتے تھے‘ سب ایک دوسرے کو جانتے تھے‘ باپ دادوں کو پہچانتے تھے‘ شرافت اور لحاظ‘ مروت اور بردباری کا مظاہرہ بہت کیا جاتا تھا‘ ہمسایوں پر جان نچھاور کی جاتی تھی‘ بچے دوڑ دوڑ کر بڑوں کی مدد کرتے تھے۔ ہمسایوں سے نمک مانگ لینے کا بڑا رواج ہوتا تھا‘ کبھی کبھار چینی بھی مستعار لی جاتی جس کو واپس لوٹا دیا جاتا تھا۔ پشاور اور وہاں بتائے ہوئے سال‘ صدیوں پر محیط ہیں جن کی یادیں لمبی لمبی رسیوں کے ساتھ بندھی ہوئی ہیں جن میں چھوٹی چھوٹی گرہیں ہیں‘ ایک گرہ کے ساتھ دوسری گرہ کھلتی ہی چلی جاتی ہے۔