جوان افراد میں جگر کے عام ترین مرض پھیلنے کی اہم وجوہات

ماضی میں جگر پر چربی چڑھنے کا عارضہ بوڑھے یا درمیانی عمر کے افراد میں زیادہ نظر آتا تھا مگر اب جوانوں میں بھی یہ عام ہو چکا ہے۔

جی ہاں واقعی جوان افراد میں جگر کے اس عام ترین عارضے کی شرح میں تشویشناک اضافہ ہوا ہے۔

خیال رہے کہ جگر پر چربی چڑھنے کا مرض ایک دائمی عارضہ ہے جس کا سامنا دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو ہوتا ہے۔

اس بیماری کے دوران جگر بہت زیادہ مقدار میں چربی ذخیرہ کرنے لگتا ہے اور اس کا علاج نہ ہو تو اس کے افعال تھم جاتے ہیں۔


جگر کی اس بیماری کے نتیجے میں میٹابولک امراض جیسے ذیابیطس ٹائپ 2 اور موٹاپے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔

عام طور پر اس بیماری کے لیے نان الکحلک فیٹی لیور ڈیزیز کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور یہ جگر کے امراض کی عام ترین قسم ہے۔

اکثر مریضوں میں ابتدائی مراحل میں اس کوئی علامات نظر نہیں آتیں اور مرض کا علاج نہ ہو تو جگر کے کینسر کا خطرہ بڑھتا ہے۔

ماہرین کی جانب سے جوان افراد میں جگر کے اس سنگین عارضے کی چند وجوہات پر روشنی ڈالی گئیں۔


حیران کن طور پر یہ وجوہات موجودہ عہد بہت زیادہ عام ہوگئی ہیں۔

ناقص غذا

پراسیس غذاؤں، چکنائی، چینی اور اضافی کیلوریز کا استعمال جگر پر چربی چڑھانے کا باعث بنتا ہے۔

موجودہ عہد میں جوان افراد فاسٹ فوڈ اور میٹھے مشروبات کا زیادہ استعمال کرتے ہیں جس کے نتیجے میں جگر کے اس عارضے کا خطرہ بڑھتا ہے۔
سست طرز زندگی

جسمانی سرگرمیوں سے دوری اور زیادہ وقت کر بیٹھ کر گزارنے سے جگر پر چربی چڑھنے کا خطرہ بڑھتا ہے۔

موجودہ عہد میں جوان افراد دفاتر میں زیادہ وقت بیٹھ کر گزارتے ہیں جبکہ گھروں میں بھی ان کا زیادہ وقت ٹی وی یا دیگر اسکرینوں کے سامنے گزرتا ہے۔

ورزش نہ کرنے سے میٹابولزم کو صحت مند رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اور اس سے جگر پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔


موٹاپا

اضافی جسمانی وزن خاص طور پر کمر اور پیٹ کے گرد چربی بڑھنے سے جگر کے اس عارضے کا خطرہ بھ یبڑھتا ہے۔

موٹاپے یا زیادہ جسمانی وزن کے مالک جوان افراد میں جگر کے اس مرض کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

انسولین کی مزاحمت اور ذیابیطس

انسولین کی مزاحمت کا سامنا موٹاپے یا ناقص غذا کے استعمال کے باعث ہوتا ہے جس سے لوگ ذیابیطس ٹائپ 2 کے شکار ہو جاتے ہیں۔

انسولین کی مزاحمت اور ذیابیطس دونوں سے جگر پر چربی چڑھنے کا خطرہ بڑھتا ہے۔

نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔