پیٹ کی چربی اور موٹاپا پاکستانی مردوں کو بانجھ پن کی طرف لے جارہا ہے: ماہرین

پاکستان میں تقریباً 70 فیصد بالغ افراد موٹاپے یا زائد وزن کا شکار ہیں اور اس بڑھتے ہوئے مسئلے کے سنگین اثرات اب مردوں کی جنسی صحت پر بھی ظاہر ہو رہے ہیں۔ 

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ مردوں میں پیٹ کے گرد چربی صرف جسمانی خوبصورتی کا مسئلہ نہیں بلکہ ہارمونل نظام کو شدید متاثر کرنے والی خطرناک حالت ہے جو رفتہ رفتہ مردانہ ہارمون (ٹیسٹوسٹیرون) کو کم کر کے جنسی کمزوری، بانجھ پن اور مردانہ خصوصیات میں کمی کا باعث بن رہی ہے۔

ماہرین کے مطابق پیٹ کی چربی ایک ہارمون بنانے والے عضو کی طرح کام کرتی ہے جو ’ایرومیٹیز‘ نامی انزائم خارج کرتی ہے جو کہ مردانہ ہارمون ٹیسٹوسٹیرون کو خواتین کے ہارمون ایسٹروجن میں تبدیل کر دیتی ہے۔ 

اس تبدیلی کے نتیجے میں مردوں میں جنسی خواہش کم ہو جاتی ہے، عضو تناسل کی کمزوری پیدا ہوتی ہے اور بعض اوقات سینے پر خواتین کی طرح ابھار (گائنوکومیستیا) بھی بن جاتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ تھکن، ڈپریشن اور جذباتی عدم توازن بھی جنم لیتے ہیں۔

اینڈوکرائنولوجسٹ یعنی ہارمونل نظام کے ماہرین کے مطابق پاکستان میں اب زیادہ سے زیادہ ایسے مرد سامنے  آرہے ہیں جن میں پیٹ کی چربی کے باعث ٹیسٹوسٹیرون کی سطح کم ہو چکی ہے اور ان کی ازدواجی زندگی، خود اعتمادی اور ذہنی صحت متاثر ہو رہی ہے۔

ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ مردوں میں اگر کمر کا گھیر 90 سینٹی میٹر (35 انچ) سے زیادہ ہو تو یہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس سطح کی شکمی چربی انسولین کی مزاحمت، اندرونی سوزش اور نائٹرک آکسائیڈ کی پیداوار میں کمی کا سبب بنتی ہے جو کہ جنسی عمل کے دوران خون کی روانی کے لیے ضروری ہے۔

پاکستان کے نامور اینڈوکرائنولوجسٹ پروفیسر عباس رضا کے مطابق اگر اس کیفیت کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو یہ کی شکل اختیار کر سکتی ہے، جس میں جسم ٹیسٹوسٹیرون بنانا تقریباً بند کر دیتا ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ موٹاپا ایک قابلِ علاج بیماری ہے اور اسے ذاتی ناکامی نہ سمجھا جائے۔

ان کے مطابق صحیح علاج اور طرزِ زندگی میں تبدیلی سے موٹاپے اور اس کے اثرات کو ریورس کیا جاسکتا ہے۔

پروفیسر عباس رضا کا کہنا تھا کہ علاج کا آغاز روزمرہ زندگی میں تبدیلی سے ہوتا ہے، جس میں 30 سے 45 منٹ کی تیز چہل قدمی، زیادہ پروٹین اور کم شکر والی غذا، پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال، ذہنی دباؤ پر قابو پانا اور مناسب نیند شامل ہیں۔

ماہرین کے مطابق صرف 5 سے 10 کلو وزن کم کرنے سے ہی ٹیسٹوسٹیرون کی سطح بہتر ہوسکتی ہے۔

طبی ماہرین اب ایسی ادویات بھی استعمال کر رہے ہیں جو وزن کم کرنے میں مددگار ثابت ہو رہی ہیں، یہ ادویات بھوک کم کرتی ہیں، انسولین حساسیت بڑھاتی ہیں اور چربی جلانے کے عمل کو تیز کرتی ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دوائیں اچھی شروعات فراہم کرتی ہیں لیکن طویل مدتی کامیابی کے لیے مستقل طرزِ زندگی اپنانا ضروری ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ ایسی ادویات صرف ماہرین کی نگرانی میں ہی استعمال کرنی چاہئیں، تاکہ صحیح اسکریننگ، خوراک کی ترتیب اور فالو اپ کو یقینی بنایا جاسکے۔

پاکستان میں ابھی تک مردوں میں موٹاپے اور جنسی کمزوری کے باہمی تعلق سے متعلق آگاہی کم ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اس موضوع پر کھل کر بات کی جانے چاہیے اور مردوں کو جلد از جلد طبی مشورہ لینا چاہیے۔ 

ان کے مطابق یہ صرف ظاہری صورت کا مسئلہ نہیں بلکہ ہارمونی نظام، اولاد کی صلاحیت، ذہنی سکون اور زندگی کے معیار کا معاملہ ہے۔

پروفیسر عباس رضا کا کہنا ہے کہ اگر طرزِ زندگی، خوراک یا دوا سے افاقہ نہ ہو تو آپریشن جیسے آپشنز بھی موجود ہیں، مگر ہر مریض کا علاج انفرادی بنیاد پر ہونا چاہیے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ مردوں کو اپنی کمر کی پیمائش کم کرنے پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ یہی ان کی مردانگی، ذہنی سکون اور آئندہ کی نسل کے تحفظ کی ضمانت ہے۔