اصلاحات کا دائرہ؟

وفاقی حکومت نے سرکاری مشینری کی کارکردگی میں بہتری اور درپیش مالی دشواریوں میں اخراجات کم کرنے کے حوالے سے بعض اہم فیصلوں کا عندیہ دیا ہے‘ وفاقی وزیر برائے خزانہ محمد اورنگزیب‘ وزیر اطلاعات و نشریات عطاء تارڑ اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے گزشتہ روز مشترکہ پریس کانفرنس میں متوقع اصلاحاتی پروگرام کے کچھ خدوخال بیان کئے‘ اس اہم پریس کانفرنس کے حوالے سے ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق وفاقی حکومت پنشن کو بڑا بوجھ قرار دیتے ہوئے اس پورے سسٹم کو ری وزٹ کر رہی ہے‘ اس میں ریٹائرمنٹ کے لئے مقررہ عمر کی حد میں اضافہ بھی شامل ہے۔ اس حوالے سے وفاقی وزراء کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملازمین کے سروس سٹرکچر میں تبدیلی کے لئے ہونے والے فیصلوں کا اطلاق تمام سرکاری اداروں پر ہو گا‘ اس کے ساتھ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی ٹیم کے دورہ پاکستان میں سٹرکچرل اصلاحات پر بات ہو گی‘ مجوزہ اصلاحات کے میرٹ اور ڈی میرٹ پر بحث میں الجھے بغیر اس ضرورت کا احساس ناگزیر ہے کہ اہم نوعیت کے تمام فیصلوں میں وسیع مشاورت یقینی بنائی جائے تاکہ اعلامیہ جاری ہونے سے قبل فیصلوں کے حق اور مخالفت میں دلائل سامنے آ جائیں۔ جہاں تک بات اصلاحات کی ہے تو اس وقت ضرورت ہر شعبے میں بہتری کی جانب پیشرفت کی ہے‘ ضرورت مرکز اور صوبوں کی سطح پر سارے دفتری نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی بھی ہے جبکہ ضروری یہ بھی ہے کہ سروسز کے نظام کو وسیع کرنے کے ساتھ اس میں نگرانی کا انتظام کیا جائے۔ مدنظر رکھنا ہو گا کہ اس وقت بڑھتی آبادی کی ضروریات کے مقابلے میں خدمات کے اداروں کے پاس وسائل کی کمی ہے‘ ساتھ ہی یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ سروسز کا معیار بھی یقینی ہو‘ یہ سب متقاضی ہے اصلاحات کے ایک بڑے پروگرام کا جس میں تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت شامل ہو۔
امراض خون کا شکار بچے
8 مئی بروز بدھ تھیلی سیمیا کا عالمی دن منایا گیا‘ اس دن کا مقصد امراض خون سے متعلق لوگوں میں آگہی اور ان کا شکار مریضوں کے علاج کی جانب توجہ مبذول کرنا ہے‘ وطن عزیز میں ہزاروں بچے خون کے امراض کا شکار ہیں جن میں اکثر کو مختلف وقفوں کے ساتھ خون فراہم کرنا ہوتا ہے اس مقصد کے لئے متعدد رضاکار ادارے اور تنظیمیں کام کرتی ہیں تاہم ضرورت سرکاری سطح پر امراض خون کا شکار بچوں کے علاج کیلئے مؤثر انتظامات کی ہے‘ ان امراض کی تشخیص اور علاج کے لئے مریضوں کے تیمارداروں کو طویل سفر سے بچانا بھی ضروری ہے جو وہ بڑے شہروں کے لئے کرتے ہیں‘ اس ضمن میں ناگزیر ہے کہ کم از کم تحصیل لیول کے ہسپتالوں میں اس کے علاج کے لئے انتظام ہو اور تشخیص کی سہولت بنیادی مراکز صحت کی سطح پر بھی ہو۔