مالیاتی حکمت عملی


وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کے مشیر برائے خزانہ مزمل اسلم کی گزشتہ روز ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کیساتھ بات چیت‘محکمہ آبپاشی کے جائزہ اجلاس میں مشیر خزانہ کو دی جانے والی بریفنگ میں صوبے کی مالیاتی حکمت عملی کے خدوخال اجاگر ہوتے ہیں مشیر خزانہ کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت صوبے میں سرکاری ملازمین کا میڈیکل الاؤنس ختم کرنے کی تجویز رکھتی ہے‘ اس الاؤنس کی بندش پر ملازمین کو سرکاری ہسپتالوں میں شعبہ ہائے بیرونی مریضاں یعنی او پی ڈی کی سہولیات کو صحت کارڈ میں شامل کرنے کیلئے سفارشات ہیں مشیرخزانہ صحت کارڈ کو غریبوں‘ لوئر مڈل کلاس اور باقی لوگوں کیلئے درجوں میں تقسیم کرنے کابھی کہہ رہے ہیں‘مشیر خزانہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ صحت کارڈ کے تحت علاج کرنے پر کمیشن حاصل کرنیوالے ڈاکٹروں پر بھی سلیز ٹیکس عائد کیا جائیگا‘ صوبائی حکومت کی جانب سے اگلے بجٹ کیلئے آنیوالی تجاویز کے میرٹ اور ڈی میرٹ پر بحث میں الجھے اور سٹیک ہولڈرز کے مثبت یا منفی ردعمل پر بات کئے بغیر اس برسرزمین حقیقت کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ درپیش حالات میں عام شہری ہر حوالے سے ریلیف کا منتظر ہے‘ اس شہری کو مارکیٹ میں ناجائز منافع خوری‘ ذخیرہ اندوزی اور انسانی صحت کیلئے انتہائی مضر ملاوٹ کا سامنا ہے یہ شہری ملک کی اقتصادیات اور کھربوں روپے کے بیرونی قرضوں کیلئے کڑی شرائط پر عملدرآمد کے تناظر میں کمر توڑ گرانی کے ہاتھوں سخت پریشان ہے‘ اس شہری کو بنیادی سہولیات حتیٰ کہ پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی کے باعث بھی مشکلات سے گزرنا پڑرہاہے اس سب کیساتھ اسی شہری کو سروسز کے شعبوں میں معیار کے مطابق خدمات آسانی سے نہ ملنے کا گلہ بھی ہے بجٹ کی دیگر ترجیحات جو بھی ہوں ان میں سب سے اہم ملک کے عام شہری کاریلیف ہے اس مقصد کیلئے ایک اہم ضرورت مارکیٹ کنٹرول کیلئے موثر نظام ہے اس نظام کے حوالے سے اگر خیبرپختونخوا پہل کر دیتا ہے تو کسی بڑے اضافی بجٹ کے بغیر موجودہ وسائل اور افرادی قوت کے استعمال سے عوام کو بڑا ریلیف مل سکتا ہے اس مقصد کیلئے ماضی قریب کے انتظامات کو بہتر انداز میں جدید دور کی ضروریات و سہولیات کے ساتھ آپریشنل کیا جا سکتا ہے‘ اسی نظام کے ساتھ عوامی نمائندوں کے تعاون سے گلی محلے کی سطح پر رسائی بھی ممکن بنائی جا سکتی ہے‘ خدمات کے شعبوں میں خصوصاً ہیلتھ سیکٹر کے اندر بڑے بڑے منصوبوں کیساتھ صرف بغیر کسی اضافی اخراجات کے چیک اینڈ بیلنس کا محفوظ اور موثر نظام دے دیا جائے تو لوگوں کو بڑا ریلیف مل سکتا ہے اس صورت میں غریب مریضوں کو اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر پرائیویٹ علاج گاہوں کو نہیں جانا پڑے گا‘ اسی طرح میونسپل خدمات اور تعلیم کے شعبوں میں بھی چیک اینڈ بیلنس کے ذریعے عوام کو سہولیات مہیا کی جا سکتی ہیں جس کیلئے فیصلہ سازی اور منصوبہ بندی کے ذمہ دار اداروں کو اقدامات اٹھانا ہونگے۔