سیاسی بحران

صدرمملکت آصف علی زرداری نے ملک میں جاری سیاسی بحران کے خاتمے کو ناگزیر قراردیا ہے‘ جمعرات کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں صدرمملکت کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس وقت کم ہے اور یہ کہ اختلافات مل بیٹھ کر حل کرنا ہوں گے‘ آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ ہم سیاسی درجہ حرارت میں کمی لا سکتے ہیں‘صدرمملکت یہ بھی کہتے ہیں کہ ملک کو درپیش چیلنجوں پر قابو پانا ہرگز ناممکن نہیں ہے‘ اس برسرزمین تلخ حقیقت سے صرف نظر کسی طور ممکن نہیں کہ ملک میں غربت بڑھ رہی ہے اس کے اثرات عام شہری کو کمر توڑ مہنگائی کی صورت برداشت کرنا پڑ رہے ہیں‘ یکے بعد دیگرے برسراقتدار آنے والی حکومتوں کی ساری کوششیں قرضوں کے حصول کے لئے مذاکرات اور قرض دینے والوں کی شرائط پر عملدرآمد پر لگی رہتی ہیں‘ایسے میں ان شرائط کا سارا بوجھ عوام پر ڈالے جانا معمول بن چکا ہے‘ اس سب کے نتیجے میں غربت بڑھ رہی ہے جب کہ عام شہری گرانی کے ہاتھوں اذیت کا شکار ہے‘ ایسے میں اصلاح احوال کے لئے مختلف شعبوں میں کڑی اصلاحات کی ضرورت ہے‘موجودہ صورتحال سے نکلنے کے لئے ضرورت ایسی موثر حکمت عملی کی بھی ہے کہ جواگر طویل المدت بھی ہوتی ہے تو اس کو اس طرح سے محفوظ بنانا ہوگا کہ یہ حکومتوں کی تبدیلی سے متاثر نہ ہونے پائے‘ یہ سب اسی صورت ممکن ہے جب معاملات یکسو کرنے کے لئے وسیع مشاورت ہر سطح پر یقینی بنائی جائے‘ اس مشاورت میں ایک دوسرے کا موقف کھلے دل کے ساتھ سننا ضروری ہے‘قومی قیادت کو برسرزمین تلخ حقائق کو مدنظر رکھنا ہوگا تاکہ آنے والی حکمت عملی ثمرآور نتائج کی حامل بنائی جاسکے‘پارلیمانی نظام میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اختلافات معمول کا حصہ ہیں تاہم ان اختلافات میں سیاسی درجہ حرارت کو اعتدال میں رکھنا ناگزیر ہے اور کم از کم اہم قومی معاملات پر بات چیت کی گنجائش رہنی چاہئے‘ کیا ہی بہتر ہو کہ سینئر قومی قیادت اس حوالے سے کردار ادا کرتے ہوئے بامعنی مذاکرات کی جانب بڑھے۔
بے قابو مارکیٹ؟
پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس شکیل احمد نے کہا ہے کہ حکومت اگر واقعی مہنگائی اور دیگر چیزوں پر کنٹرول چاہتی ہے تو اسے انتظامی افسروں کو اختیارات دینے ہونگے‘ گرانی سے متعلق کیس کی سماعت میں ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب سے ڈپٹی کمشنروں اور اسسٹنٹ کمشنروں سے اختیارات لئے گئے ہیں‘ معاشرے میں مہنگائی اور لاقانونیت بڑھ گئی ہے جسٹس شکیل احمد کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسئلہ اس وقت تک برقرار رہے گا جب تک ان اختیارات کو قوانین کے ذریعے واپس نہیں کیا جاتا‘ اس حقیقت سے چشم پوشی ممکن نہیں کہ اس وقت مصنوعی مہنگائی نے عوام کو زیادہ اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے‘ اس گرانی کو کنٹرول کرنے کیلئے ماضی میں مجسٹریسی نظام بھی کام کرتا تھا اضلاع کی سطح پر بنی پرائس کمیٹیاں بھی فعال ہیں‘ انتظامی افسر اختیارات کے ساتھ مارکیٹ کنٹرول کیلئے متحرک رہتے تھے پشاور ہائیکورٹ کے ریمارکس متقاضی ہیں کہ حکومت ان کی روشنی میں مارکیٹ کنٹرول یقینی بنانے کی جانب پیش رفت کرے تاکہ عوام کو مصنوعی مہنگائی کیساتھ ذخیرہ اندوزی اورملاوٹ سے چھٹکارہ مل سکے۔