ضمنی انتخابات کا مرحلہ


وطن عزیز کے گرما گرمی اور سخت تناؤ کا شکار سیاسی منظر نامے میں گزشتہ روز ضمنی انتخابات کا مرحلہ بھی مکمل ہو گیا۔ ملک بھر میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے مجموعی طور پر 21 حلقوں میں اتوار کے روز پولنگ ہوئی‘ ملک کے عرصے سے سخت کشمکش کا شکار سیاسی ماحول میں اب کی مرتبہ اسمبلیوں کی تحلیل اور نگران حکومتوں کا کام بھی دشوار ہی تھا‘ گرما گرم سیاسی میدان میں کہ جہاں عرصہ سے ایک دوسرے کے خلاف الفاظ کی گولہ باری جاری تھی‘ انتخابی مہم اور پولنگ کا عمل زیادہ توجہ طلب رہا۔ انتخابات کے بعد مرکز اور صوبوں میں حکومت سازی کے مراحل بھی اہمیت کے حامل رہے‘ اس سب کے ساتھ ملک اور عوام کو درپیش مشکلات متقاضی ہیں کہ اب سیاسی درجہ حرارت کو اعتدال میں رکھنے کے ساتھ مسائل کے حل کی جانب پیشرفت یقینی بنائی جائے‘ پارلیمانی جمہوریت میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اختلاف رائے معمول کا حصہ ہے‘ تاہم اس کو اعتدال میں رکھنے کے ساتھ اہم قومی معاملات کو باہمی مشاورت کے ساتھ یکسو کرنا بھی ناگزیر ہے‘ ایک ایسے وقت میں جب بلدیاتی اداروں سے لے کر ایوان بالا تک عوامی نمائندگی موجود ہے‘ عوام اپنے مسائل کے حل کے لئے منتظر ہے‘ اس برسرزمین تلخ حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ملک اقتصادی شعبے میں شدید مشکلات سے دوچار ہے‘ کھربوں روپے کے بیرونی قرضوں کے حجم میں مزید اضافہ ہونے جا رہا ہے‘ ہر قرضے کے ساتھ آنے والی شرائط پر عمل درآمد کے نتیجے میں گرانی کی شرح مزید بڑھ جاتی ہے‘ اس وقت عام شہری کمر توڑ مہنگائی کے ہاتھوں اذیت کا شکار ہے‘ اس سب کے ساتھ گردشی قرضے پریشان کن صورت اختیار کئے ہوئے ہیں۔ خود وفاقی وزیر برائے پٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک کا کہنا ہے کہ گیس اور بجلی کے گردشی قرضے ملک کو برباد کر رہے ہیں‘ وہ برآمدات میں اضافے کے لئے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کمی کو ناگزیر قرار دیتے ہیں اسی سے پیداواری لاگت کم ہونے پر عالمی منڈی میں مسابقت ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ دریں اثناء خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حکومت نے تیل کمپنیوں کو قیمتوں کا تعین کرنے کا اختیار دینے پر غور شروع کر دیا ہے‘ درپیش صورتحال میں سستی بجلی کے حصول کے لئے آبی ذخائر کی تعمیر ناگزیر ہے یہ ذخائر بھی اسی صورت تعمیر ہو سکتے ہیں جب ان کے لئے قومی قیادت مل جل کر فیصلے کرے۔ ملک کو درپیش مشکلات سے نکالنے کے لئے ترتیب دی جانے والی حکمت عملی کو اس انداز سے محفوظ بنانے کی ضرورت ہے کہ یہ حکومتوں کی تبدیلی سے متاثر نہ ہونے پائے‘ اس سب کیلئے قومی قیادت کو ایک دوسرے کا مؤقف سن کر پائیدار حکمت عملی ترتیب دینا ہو گی۔