امریکی پابندی

امریکہ نے محض اس شک کی بنیاد پر چار غیر ملکی کمپنیوں پر پابندی لگادی ہے کہ یہ مبینہ طوپر پاکستان کو بیلسٹک میزائل پروگرام کیلئے آلات فراہم کر رہی ہیں‘ امریکی پابندی کی زد میں آنیوالی کمپنیوں میں سے تین چین جبکہ ایک بیلاروس کی ہے‘ خبررساں ادارے نے امریکی محکمہ خارجہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ پابندی کا مقصد رویئے میں تبدیلی لانا ہے اور یہ کہ مذکورہ اقدام کوئی سزا نہیں‘ امریکہ کی جانب سے اس پابندی کے حوالے سے ایگزیکٹیو آرڈر سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے جاری کیا ہے‘ یہ آرڈر13382 کے تحت کاروائی عمل میں لائی گئی ہے یہ آرڈر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور ان کی ترسیل کے ذرائع کو ہدف بناتا ہے‘ پاکستان نے امریکی پابندی مسترد کر دی ہے اسلام آباد میں دفتر خارجہ نے واضح کیا ہے کہ پاکستان ایکسپورٹ کنٹرول کے سیاسی استعمال کو مسترد کرنا ہے پاکستان کے میزائل پروگرام سے متعلق اس تازہ امریکی اقدام سے پہلے بھی الزامات پر ثبوت کے بغیر تجارتی اداروں کی فہرستیں سامنے آئی تھیں ماضی میں بھی یہ فہرستیں محض شک کی بنیادپر بنائی گئی تھیں جبکہ پاکستان متعدد مرتبہ نشاندہی کر چکا ہے کہ ایسی اشیاء کا جائز اور سویلین تجارتی استعمال ہوتا ہے‘ چاہئے تو یہ کہ اپنی جانب سے من مانے اقدامات کی بجائے اگر امریکہ اور دیگر فریق ٹیکنالوجی پر بے بنیاد شکوک کی بنیاد پر پابندیاں عائد کرنے کی بجائے ایک بامقصد میکنزم ترتیب دے دیا جائے کہ جس میں کم از کم برآمدی کنٹرول کے من مانے اطلاق سے گریز ممکن بنایا جا سکے اسکے ساتھ بڑے فیصلوں میں توازن اور غیر جانبداری بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے‘ اس برسرزمین حقیقت کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگاکہ ہتھیاروں پر کنٹرول سے متعلق بڑی دعویداری کیساتھ ساتھ متعدد ممالک کو جدید فوجی ٹیکنالوجی کے لائسنسوں میں استثنیٰ دیا جاچکا ہے اس استثنیٰ کے نتیجے میں خطے اور عالمی امن و سلامتی کو بھی خطرات لاحق ہوئے‘ وقت کا تقاضہ ہے کہ امریکہ برآمدی کنٹرول سے متعلق من مانے فیصلوں سے گریز کرے۔
ایک اور قرض پیکیج
ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق پاکستان نے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ سے بیل آؤٹ پیکیج کی نئی درخواست کردی ہے اس پیکیج کا حجم6سے8ارب ڈالر بتایا جارہا ہے اس حوالے سے پاکستان کی جانب سے2درخواستیں دی گئی ہیں میڈیا رپورٹس کے مطابق نئے پروگرام سے متعلق بات چیت کیلئے آئی ایم ایف کا وفد اگلے ماہ پاکستان آئے گا‘ ہر نئے قرضے کیساتھ قرض دینے والوں کی شرائط پر مشتمل فہرست معمول کا حصہ ہے اس فہرست کا بوجھ عوام پر ڈالنا بھی معمول ہے اب کی بار تو قرض دینے والوں کے تحفظات مدنظر رکھتے ہوئے بجٹ میں تنخواہیں نہ بڑھانے کا عندیہ بھی دیا جا رہا ہے‘ کیا ہی بہتر ہو کہ نئے قرضوں کے حصول پر توجہ مرکوز رکھنے کی بجائے اب قرضوں سے چھٹکارے کی جانب بڑھاجائے اس مقصد کیلئے ضرورت ایک کنکریٹ لائحہ عمل کی ہے جس میں وسیع مشاورت بھی شامل ہو۔