پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں 


ملک کو درپیش سنگین اقتصادی چیلنجوں کے باعث گرانی کے ہاتھوں سخت اذیت کا شکار عوام کو ایک خبر روٹی 5روپے سستی ہونے کی ملی ہے تو دوسری پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں مزید اضافے کی‘اس سب کیساتھ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کیساتھ نئے قرضے کیلئے رابطوں کی صورت آئی ایم ایف کی جانب سے مزید کڑی شرائط کا خوف اپنی جگہ ہے روٹی کے وزن اور قیمت کے حوالے سے جاری تفصیلات کے مطابق حکومت کی جانب سے 100 گرام روٹی کا نرخ15روپے مقرر کیا گیا ہے‘ اسی طرح200 گرام کی روٹی30روپے میں فروخت کرنے کاکہا گیا ہے اس پر نانبائی ایسوسی ایشن کی جانب سے مطالبات بھی سامنے آئے ہیں‘دریں اثناء پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں پرہونے والی نظرثانی کے نتیجے میں پٹرول4.53 جبکہ ڈیزل8.14 روپے لٹر مہنگا کردیاگیا ہے‘ لائٹ ڈیزل کی قیمت میں 6.54 جبکہ مٹی کے تیل کی فی لٹر قیمت6.69 روپے بڑھا دی گئی ہے‘ نئے اعلان کیساتھ پٹرول کی نئی قیمت293.94 روپے فی لٹر فی الفور ہی ہوگئی ہے‘ عین اسی روز جب وطن عزیز میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں معمولی سہی تاہم کم ضرور ہوئی ہیں‘ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ کسی بھی ریاست میں گرانی کے دیگر عوامل کیساتھ عالمی اقتصادی صورتحال اثرانداز ہوتی ہے‘ وطن عزیز میں کمر توڑ گرانی کی دیگر وجوہات کیساتھ بڑی وجہ بیرونی قرضوں کے حصول کیلئے قرض دینے والوں کی شرائط پر عملدرآمد ہے ہر نئے قرضے پر سامنے آنے والی شرائط کا لوڈ عوام پر ہی گرانی کی صورت گرایا جاتا ہے ایسے میں عوام کو ریلیف دینے کیلئے دیگر اقدامات کیساتھ ضروری ہے کہ مارکیٹ کنٹرول کیلئے موثر انتظامات یقینی بنائے جائیں کہ جن میں چیک کا نظام گراس روٹ لیول تک رسائی کا حامل ہو اور لوگوں کو ثمرآور نتائج کی صورت ریلیف کا خوشگوار احساس ہو سکے۔
مسئلے کا پائیدار حل؟
بجلی کے بھاری بلوں سے پریشان صارفین کو اکثر یہی بتایا جاتا ہے کہ بجلی کی پیداوار ضروریات سے کم ہے‘ بجلی سستے کی بجائے مہنگے ذرائع سے تیار ہوتی ہے‘ آبی ذخائر ضرورت کے مطابق ہوتے تو بجلی کا بل کم بنتا‘ بجلی کا ضیاع ہو رہاہے‘ لائن لاسز کا حجم روزبروز بڑھ رہا ہے‘ بجلی چوری پر قابو پانا انتہائی مشکل ہو چکا ہے‘ طلب کے مقابلے میں بجلی کی رسد کل اتنی تھی آج اتنی ہے‘ گیپ اتنے میگاواٹ ہے یہ سب معمول کی باتیں بن چکی ہیں‘ بھاری بل ادا کرنے کے باوجود لوڈشیڈنگ کی اذیت اپنی جگہ ہے‘ دوسری جانب ترسیل کے نظام میں موجود خرابیوں کے باعث صارفین کو سخت مشکلات کا سامنا ہے‘ ترسیل کانظام درست کرنے کیلئے تخمینہ جات کا کام بھی ہوتا رہا اور سسٹم کی بہتری کیلئے جلدفنڈز ریلیز کرنے کی باتیں بھی ہوتی چلی آرہی ہیں اس سب کے باوجود عملی نتائج دکھائی نہیں دے رہے اور حکومت کی جانب سے اس پر مسلسل خاموشی سوالیہ نشان ہے جبکہ متعلقہ ادارے جو فنڈز جاری کرنے کے ذمہ دار ہیں اس پر چپ بیٹھے ہیں‘ کیا ہی بہتر ہو کہ اب عملی اقدامات کی جانب بڑھا جائے۔