برسر زمین ثمر آور نتائج؟

وطن عزیز کو اقتصادی شعبے میں درپیش مشکلات کے وقت میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان سرمایہ کاری اور دوسرے شعبوں میں تعاون کے حوالے سے پیشرفت قابل اطمینان ہے‘ ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل نے سعودی عرب کو قومی فضائی کمپنی اور ایئر پورٹس کی نجکاری میں مشترکہ منصوبے کی پیشکش کی ہے‘ اس کے ساتھ ہی 2 فائیو سٹار ہوٹلوں‘ مٹیاری ٹرانسمیشن لائن اور فرسٹ ویمن بینک میں بھی سعودی عرب کو مشترکہ سرمایہ کاری کا کہا جا رہا ہے۔ وزیر خارجہ اسحاق ڈار آئندہ چند ماہ میں بڑی پیشرفت کا عندیہ دے رہے ہیں۔دریں اثناء ملک کے اقتصادی اصلاحاتی پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کیلئے عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ قرض کے نئے معاہدے کیلئے بات چیت شروع کر دی گئی ہے‘ اس معاہدے کے تحت حاصل ہونے والے قرضے کا حجم 7 ارب ڈالر بتایا جا رہا ہے‘ ذمہ دار دفاتر کا یہ بھی کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ سابقہ پروگرام کے تحت 1.1 ارب ڈالر اسی مہینے جاری ہونے کا امکان ہے‘ اس سب کے ساتھ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی جانب سے پاکستان میں مہنگائی اور بے روزگاری کی شرح میں کمی کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے‘ یہ امکان آئی ایم ایف کی جانب سے جاری ہونے والی ورلڈ آؤٹ لک رپورٹ 2024ء میں ظاہر کیا گیا ہے۔ وطن عزیز میں اقتصادی شعبے کی مشکلات کا لوڈ عام شہری کو منتقل ہونا معمول ہے جبکہ اصلاح احوال کی کوششوں میں برسرزمین عملی ریلیف تلاش کرنے پر بھی دکھائی نہیں دیتا۔ مرکز اور صوبوں میں برسر اقتدار آنے والی ہر حکومت تعمیر و ترقی اور عوام کو سہولیات پہنچانا اپنی ترجیحات میں سرفہرست قرار دیتی ہے‘ کم اور زیادہ کے فرق سے ہر دور میں اس حوالے سے متعدد منصوبے بنتے بھی ہیں جبکہ درجنوں کے حساب سے حوصلہ افزا اعلانات بھی سرکاری فائلوں میں لگتے رہتے ہیں‘ اس سب کے باوجود ملک کا عام شہری ثمرآور نتائج کا منتظر ہی رہتا ہے‘ بعد از خرابی بسیار سہی اب وقت کا تقاضا ہے کہ مرکز اور صوبوں کی سطح پر ہونے والے اعلانات و اقدامات کے برسرزمین عملی نتائج یقینی بنائے جائیں‘ اس مقصد کیلئے محفوظ حکمت عملی یقینی بنانا ہو گی۔ یہ سب اسی صورت ممکن ہے جب فیصلہ سازی اور منصوبہ بندی کے پورے عمل میں برسرزمین حقائق کو مدنظر رکھا جائے۔ ہمارے ہاں پلاننگ کے مراحل میں تمام تر انحصار صرف فائلوں میں لگی رپورٹس پر کیا جاتا ہے‘ اس حقیقت کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ کسی بھی سیکٹر میں اصلاحات صرف اسی صورت ممکن ہیں جب پلاننگ جیسے اہم مرحلے میں ارضی حقائق کو مدنظر رکھا جائے‘ آنے والے وقت کی ضروریات کا احساس کیا جائے اور منصوبہ بندی کو تکنیکی مہارت سے آراستہ کیا جائے‘ اس کے ساتھ ٹائم فریم کا تعین بھی ضروری ہے۔