پرانی خبر:نیاواقعہ

صرف حال ہی نہیں بلکہ مستقبل پر بھی خطرات منڈلا رہے ہیں‘ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ایف اے او کا کہنا ہے کہ پاکستان کے کئی علاقے ٹڈی دل کے افزائش اور ان کے پھیلاو¿ کا ذریعہ ہیں‘ ایف اے او کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والی تحقیق اور سفارشات قابل غورہیں‘ جن کے مطابق بہار اور گرمیوں کے موسم میں صحرائی قسم کی ٹڈیاں پاک بھارت سرحدی علاقوں میں انڈے دیتی ہیں۔ ٹڈیوں کی افزائش کا یہ عرصہ مون سون بارشوں تک جاری رہتا ہے جو عموماً ماہ جون کے پہلے یا دوسرے نصف حصے میں شروع ہوتی ہیں اور انکا سلسلہ ستمبر یا اکتوبر کے مہینوں تک مسلسل جاری رہتا ہے‘ ہر سال ان ٹڈیوں کی تعداد میں کمی بیشی کی وجہ مون سون بارشوں کا عرصہ ہے جسکا دورانیہ زیادہ ہونے کی وجہ سے ٹڈیاں زراعت کے استعمال ہونےوالے رقبوں سے دور رہتی ہیں لیکن جیسے ہی مون سون بارشیں ختم ہوتی ہیں اور ہر طرف ہریالی پھیلنے لگتی ہے تو یہ فصلوں کو نقصان پہچانے امڈ آتی ہیں۔ سبزی و باغات کی تیاری کے عرصے میںبھی تاک میں بیٹھے ٹڈی دل حملہ آور ہو جاتے ہیں‘پاکستان اور بھارت میں فروری سے مارچ ٹڈیوں کی افزائش ہوتی ہے اور یہ صرف پاک بھارت ہی نہیں بلکہ پاک ایران سرحدی علاقوں میں بھی ڈیرے ڈالے رہتی ہیں‘ 1995ءسے پاکستان اور ایران نے ٹڈی دل کے خاتمے کےلئے مشترکہ لیکن محدود پیمانے پر کوششوں کا آغاز کر رکھا ہے جسکی وجہ سے ٹڈیوں پر قابو پانے میں اب تک خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔

“پاکستان ایک مشکل سے دوسری مشکل میں جا پھنسا ہے‘ایک طرف کورونا وائرس کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں متاثر ہیں تو دوسری طرف ٹڈی دل کے حملوں میں آئی تیزی کی وجہ سے کاشتکاروں کی نیندیں اڑ چکی ہیں‘ جن کی محنت کو دیکھتے ہی دیکھتے چٹ کر جانےوالے ٹڈی دل قابو سے باہر ہیں۔ اگرچہ ٹڈیوں کے مقامی اور ہمسایہ ممالک سے آنےوالے ہجوم پہلے ہی تباہی مچا رہے تھے لیکن ان کی شدت میں عموماً وقت کےساتھ آنے والی کمی اس مرتبہ دیکھنے میں نہیں آ رہی ہے اور ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ٹڈیاں جنوبی پنجاب اور سندھ کے ان علاقوں میں زیادہ بڑے پیمانے پر حملہ آور ہو سکتی ہیں جہاں آم کے باغات اور اناج و چارے کی فصلیں تیار کھڑی ہیں!ابھی پاکستان کورونا وائرس کے تباہ کن اثرات ہی سے باہر نہیں نکلا تھا کہ اسے ٹڈیوں سے نمٹنا پڑ رہا ہے اور یہ ایک ایسے مسئلے کے طور پر سامنے آیا جس سے نمٹنے کےلئے قطعی کوئی تیاری نہیں کی گئی تھی‘ جیسا کہ اس سے پہلے پاکستان نے کبھی بھی ٹڈی دل نہ دیکھا ہو۔ این ڈی ایم اے کی تمام تر توجہ کورونا وائرس سے نمٹنے پر مرکوز ہے اور دوسری طرف ٹڈیوں کے جھنڈ انتہائی خاموشی سے ملک میں خوردنی اجناس کی کمی جیسے بحران و زرعی نقصانات میں اضافہ کر رہے ہیں‘اگر حسب ضرورت بڑے پیمانے‘ درست طریقے اور مناسب وقت کےساتھ ردعمل کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو ٹڈی دل شدید بحرانی صورت اختیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو بھارت اور پاکستان دونوں میں انتہائی ضروری اشیائے خوردونوش والے کھیتوں کو دیکھتے ہی دیکھتے تباہ کر کے رکھ دے گا۔

صحرائی ٹڈیاں پاکستان کےلئے پرانی خبر اور نیا واقعہ ہیں‘ ان کی یلغار کئی دہائیوں سے ہر سال معمول کے مطابق ہو رہی ہے‘یہ بھارت‘ ایران اور پاکستان میں نشوونما پاتی ہیں لیکن ان تینوں ممالک میں ان سے نمٹنے کےلئے الگ الگ کوششیں کی جاتی ہیں جو اسوقت تک کامیاب نہیں ہوں گی جب تک سائنسی بنیادوں اور اشتراک عمل سے اس غیرمعمولی بڑے خطرے سے نمٹنے کا اہتمام و انتظام نہیں کیا جاتا۔ ممالک نے خود کو جغرافیائی سرحدوں میں تقسیم کر لیا ہے لیکن قدرت کی نظر میں اس سرحدی تقسیم کی کوئی حیثیت نہیں‘ بنیادی طور پر پاکستان اور بھارت کو ٹڈی دل کے خاتمے میں قائدانہ کردار ادا کرنا چاہئے کیونکہ ان کے پاس وسائل موجود ہیں۔ ایران عالمی اقتصادی پابندیوں کے باعث اس قابل نہیں کہ اپنے ہاں یا کسی ہمسائے ملک کے ساتھ اشتراک عمل میں حسب خواہش بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکے جبکہ پاکستان اور بھارت کے فیصلہ سازوںکو دیکھنا ہوگا کہ اگر وہ ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی میں زرعی نقصانات برداشت کرنے کےلئے بھی تیار ہیں اور ٹڈی دل کےخلاف بھی تعاون نہیں کریں گے تو اس سے اکثریتی غربت زدہ ممالک پاکستان و بھارت میں قحط و خشک سالی بڑھے گی۔ اقوام متحدہ کی جانب سے نشاندہی کر دی گئی ہے کہ پاکستان کو فوری طور پر رد عمل ظاہر کرنا چاہئے اور بھارت کو طیاروں کے ذریعے ادویات کے چھڑکاو¿ اور ٹڈیوں کو مارنے کے عمل میں پاکستان کے ساتھ مل کر حکمت عملی مرتب دینی چاہئے۔