فلسطین : عالمی طاقتوں کا ردعمل (ستم ظریفی)

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی ماہر ’فرانسسکا البانیس‘ نے چودہ اکتوبر کے روز خبردار کیا کہ فلسطینی علاقے غزہ میں شہری آبادی کو "بڑے پیمانے پر نسل  کشی" کے خطرے کا سامنا ہے، انہوں نے عالمی برادری سے جنگ بندی پر فوری عمل درآمد کی اپیل بھی کی جبکہ اِس سے قبل اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ انسانیت کو شرمسار کرنے والا واقعہ ہے، انتونیو گوٹیرس نے کہا کہ "یہ حالیہ واقعہ یوں ہی نہیں رونما ہوا ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ تشدد ایک طویل تنازع یعنی 56 سال کے قبضے اور اس کے سیاسی خاتمے کی امید کی کمی سے نکلا ہے، اب وقت آ گیا ہے کہ اس خونریزی، نفرت اور پولرائزیشن کو روکا جائے۔

‏فلسطین میں جاری تنازعے‏‏ نے مغرب میں خود ساختہ جمہوریت پسندوں کا بدنما چہرہ بے نقاب کر دیا ہے۔ درحقیقت اسرائیل کی زیادتیوں کا دفاع کرنے والے بھی فلسطینیوں کے قتل عام میں برابر کے شریک ہیں۔‏

‏امریکہ ایک غیرذمہ دار عالمی طاقت ہونے کا مظاہرہ کر رہا ہے اُور اُس کی جانب سے جنگ بندی روکنے اور غزہ کی محصور آبادی کو راحت پہنچانے کی کوششیں کی مذمت ناقابل یقین ہیں۔ حال ہی میں جب امریکی حکومت کے ترجمان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ فلسطین میں جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہیں تو پریس سیکرٹری نے اِس مطالبے کو 'مکروہ' قرار دیا اور کہا کہ یہ شرمناک ہو گا۔"‏

‏مزید برآں، جیسا کہ امریکی میڈیا میں رپورٹ کیا گیا ہے، اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک میمو میں امریکی سفارت کاروں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ 'امن بحال کرنے، تشدد/ خونریزی کا خاتمہ' اور 'کشیدگی کم کرنے/ جنگ بندی' جیسے جملے استعمال نہ کریں۔ واشنگٹن نے اسرائیل کو فلسطینی عوام کے قتل عام کو جاری رکھنے کے لیے گرین سگنل دے دیا ہے جبکہ تشدد کے خاتمے کے مطالبے کو بھی مسترد کر دیا ہے۔‏

‏مغربی برادری کے دیگر ارکان بھی اس سے بہتر نہیں ہیں۔ فرانس نے "امن عامہ" کو برقرار رکھنے کے لئے فلسطین کے حق میں ریلیوں ‏‏پر پابندی عائد کردی‏‏ ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ آزادی، اخوت اور بھائی چارے کی سرزمین پر فلسطینیوں یا ان سے ہمدردی رکھنے والوں کے لیے یہ مذموم نظریات حدود سے باہر ہیں۔‏

‏برطانیہ میں وزیر داخلہ نے پولیس سے کہا ہے کہ وہ فلسطینی جھنڈوں اور نعروں پر پابندی لگانے پر غور کرے۔ اگرچہ مغربی ریاستیں آزادی اظہار کے تقدس کو پامال کرتے نہیں تھکتی ہیں لیکن بظاہر یہ حق صرف فلسطین پر تنقید کرنے والوں اور اسرائیل کے حامیوں کے لیے محفوظ ہے۔ امریکہ میں ایسی اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ فلسطین کے حق میں ہونے والی تقریبات میں شرکت کرنے والے طلبہ اور کارکنوں کو ایف بی آئی کے ایجنٹوں ‏‏نے ہراساں کیا‏‏ گیا ہے۔ ان تمام پیش رفتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغربی اشرافیہ کے نزدیک اسرائیل 'ہم' کی نمائندگی کرتا ہے، جس پر ماتم کیا جائے اور اس کا بدلہ لیا جائے، جبکہ فلسطینی 'ان' کی علامت ہیں، جن پر لعنت کی جائے اور ترجیحی طور پر ان کا خاتمہ کیا جائے۔‏

‏‏گزشتہ سات دہائیوں کے دوران اسرائیل نے فلسطینی عوام کے خلاف تشدد میں اضافہ کیا ہے اور ‏‏گزشتہ ہفتے جو کچھ ہوا‏‏ وہ 75 سال کے جبر، ذلت اور قتل کا نتیجہ تھا۔ بنیادی طور پر فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی اور وقار کی حامل ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مسلم دنیا کے ساتھ ساتھ گلوبل ساؤتھ کے لوگ اور مغرب کے باشعور شہری فلسطین کے ساتھ یکجہتی کے ساتھ کھڑے ہیں۔‏

‏جو چیز ناگوار ہے وہ غزہ میں تشدد کے خاتمے کا مطالبہ نہیں ہے بلکہ فلسطینیوں کے خلاف مغربی منافقت اور نسل پرستی ہے۔ ظاہر ہے کہ بہت سی مغربی حکومتیں اور مغربی میڈیا کے کچھ حصوں نے یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ ظالم کے ساتھ کھڑی ہیں اور فلسطینیوں کو انسان ماننے سے انکار کرتی ہیں۔‏

‏اگلی بار جب مغرب کے عظیم لوگ دوسروں کو انسانی حقوق کے بارے میں لیکچر دیں گے تو فلسطین کی سویلین آبادی کے بارے میں ان کا موقف ان کے بیانیے کے کھوکھلے پن کو ظاہر کر دے گا۔‏

فلسطین کے عوام مظلوم ہیں جبکہ تصویر کا دوسرا رخ ایران کے سربراہ رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای نے پیش کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ فلسطین میں خواتین اور بچوں سمیت بے گناہ لوگوں پر بمباری اور طاقت کے وحشیانہ استعمال سے دلی صدمہ ہوا ہے لیکن ان واقعات کا دوسرا رخ یہ ہے اسلام کی ناقابل یقین طاقت کا مقابلہ کرنا اب کفار کے لئے ممکن نہیں رہا۔ انہوں نے کہا اللہ کے فضل سے فلسطین میں شروع ہونے والی سرگرمیوں کے نتیجے میں فلسطینی مکمل کامیاب ہوں گے۔ عالم اسلام کی ذمہ داری ہے کہ فلسطینی عوام کی مدد کرے۔