مالی بحران : منفی اثرات

مالی بحران کے سماجی اثرات ایک ایک کرکے ظاہر ہونے لگے ہیں۔

پہلے لوگ دیہات سے شہروں کی طرف نقل مکانی کرتے تھے تاکہ بہتر روزگار کے مواقع میسر آئیں لیکن اب شہروں سے دیہات کی طرف واپس نقل مکانی ہو رہی ہے کیونکہ زرعی معیشت و معاشرت پر انحصار کرنے والے دیہی علاقوں کی صورتحال شہروں کی نسبتاً اب بھی کافی بہتر ہے۔ کسی بھی شہر میں بنیادی ضروریات کی لاگت میں بے تحاشہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ مکانات کے کرایوں سے لیکر آمدورفت اُور کاروباری اخراجات بڑھ گئے ہیں جبکہ اِن میں توازن رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ اصطلاحی طور پر اِس عمل کو ’ریورس مائیگریشن‘ کہا جاتا ہے اُور یہ کوئی انوکھی بات نہیں لیکن پاکستان میں جس تیزی سے شہروں کی جانب نقل مکانی ہوئی اُس سے زیادہ تیزی سے دیہی علاقوں کی طرف لوٹنے کا سلسلہ جاری ہے اُور اِس ماحول میں ایک طرح کا انفرادی پن بھی پایا جاتا ہے کہ شہروں کو آنے والے خاندان کے سبھی افراد دیہات کو واپس نہیں جا رہے بلکہ کنبے کے زیادہ تر منحصر افراد کو واپس دیہات بھیجا جا رہا ہے اُور محنت کش جن کا تعلق آمدنی کے لحاظ سے نچلے درجے کے مزدوروں میں ہوتا ہے مجبوراً اپنے ہی ملک میں معاشی مہاجرت اختیار کر رہے ہیں۔ اِس پوری صورتحال کا تاریک پہلو یہ ہے کہ سکولوں میں زیرتعلیم بچوں کو نکالا جا رہا ہے اُور شہروں سے دیہی علاقوں کو جانے والوں کے لئے دیہات میں تعلیم کے خاطرخواہ مواقع پہلے ہی سے مہیا نہیں کئے گئے ہیں۔

معاش کے لئے یہاں وہاں جانا فطری عوامل ہیں‘ جب معاشی ترقی رک جاتی ہے‘ معیشت قرض پر انحصار کرتے ہوئے قرضوں کا حجم پہاڑ جیسا کر دے‘ کرنسی بحران‘ ریکارڈ مہنگائی و بے روزگاری اُور معیشت کی تنزلی دیکھنے میں آئے تو ایسے میں بہت سے حقائق اُور حقیقت حال بدل جاتی ہے اُور اِس میں اُن طبقات کا زیادہ معاشی نقصان ہوتا ہے جو یہ نقصان اُٹھانے کی سکت نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ غریب و متوسط طبقے کی معاشی خوشحالی اُور معیار زندگی ہمیشہ داؤ پر لگا رہتا ہے۔ 

قومی و صوبائی فیصلہ سازوں کی جانب سے عوام کو باور کرایا جاتا ہے کہ اس طرح کے رجحانات عارضی (وقتی ثابت ہوں گے اور معیشت مندی کے بعد پھر سے بحال ہو جائے گے لیکن ایک عرصے سے ایسا نہیں ہو رہا۔ دوسری جانب اصولاً حکومت کو یہ چاہئے کہ عوام پر ٹیکسوں کی شرح کم کرے لیکن بدقسمتی سے نہ صرف ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کیا جا رہا ہے بلکہ ایسے ٹیکس بھی عائد کئے جا رہے ہیں‘ جو غریبوں پر سرے سے لاگو ہی نہیں ہونے چاہیئں۔ اِس سلسلے میں قومی معاشی و اقتصادی فیصلہ سازی اپنے ہاتھ میں لینا ہوگی اُور وہ سبھی معاشی فیصلے خود کرنا ہوں گے جن سے عام آدمی (ہم عوام) براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ عوام کے نکتۂ نظر سے پاکستان کا مالیاتی بحران کسی بھی صورت آئی ایم ایف پروگرام (قرض) پر انحصار کرنے سے حل نہیں ہو سکتا جب تک کہ کم خرچ طرزحکمرانی کی داغ بیل نہ ڈالی جائے۔ سمجھنا ہوگا کہ ایک بیل آؤٹ پروگرام (قرض) سے دوسرے بیل آو¿ٹ پروگرام (قرض) کا پرانا (روائتی) طریقۂ کار مزید کارآمد ثابت نہیں ہو سکتا اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ حکومت‘ جو کہ ایک عام آدمی (ہم عوام) کو ریلیف فراہم کرنے سے قاصر رہی ہے اُس وقت تک بے بس رہے گی جب تک وہ اُن شعبوں پر ٹیکسیز (محصولات) کی شرح میں اضافہ نہیں کرتی جن سے آمدنی حاصل کرنے والے اپنے حصے کا ٹیکس ادا نہیں کر رہے۔ اِن میں زراعت‘ رئیل اسٹیٹ (جائیداد کی خریدوفروخت) اور ہول سیل سیکٹرز شامل ہیں‘ جن سے اگر ٹیکسوں کا منصفانہ حصہ وصول کیا جائے تو سالانہ ’کئی کھرب روپے‘ اضافی آمدنی حاصل ہو سکتی ہے۔ اِس مرحلہ¿ فکر پر مزید کسی غلطی کی گنجائش نہیں رہی۔ پاکستان کی معیشت اب بھی دیوالیہ (ڈیفالٹ) ہونے کے دہانے پر کھڑی (معاشی تباہی کے انتہائی قریب) ہے اُور اِس سے نکلنے کا راستہ قرض نہیں بلکہ قومی آمدنی کے وسائل کو ترقی دینا ہے۔