آزادی اظہار کے فکری تصورات

دنیا اسلام کے مقدسات کے بارے میں خاطرخواہ احترام کا مظاہرہ نہیں کر رہی۔

‏انتہائی دائیں بازو کی سوچ رکھنے والے معاشروں بالخصوص یورپ میں، اسلام کی مقدس ترین علامتوں کی بے حرمتی کے مسلسل واقعات اُور اسلام مخالف باقاعدہ مہمات اس بات کی دلیل ہیں کہ عالم اسلام کے جذبات کو اشتعال دلایا جا رہا ہے اُور عالم اسلام کے صبر کا امتحان لیا جا رہا ہے۔‏

‏گزشتہ چند ماہ کے دوران یورپی ریاستوں میں قرآن پاک کو یا تو نذر آتش کیا گیا ہے یا اس کی بے حرمتی کی گئی ہے۔‏

‏اگرچہ اس سے پہلے زیادہ تر واقعات ‏‏سویڈن‏‏ اور ‏‏ڈنمارک‏‏ میں پیش آئے تھے لیکن تازہ ترین غم و غصہ 23 ستمبر کو ہالینڈ (نیدرلینڈز) میں ہوا ، جب بدنام زمانہ یورپی نفرت انگیز گروپ پیگیڈا کے ڈچ ونگ کے رہنما نے متعدد مسلم سفارت خانوں کے باہر مقدس کتاب کی ‏‏بے حرمتی‏‏ کی۔‏

‏ان میں پاکستان، ترکی اور انڈونیشیا کے مشن شامل تھے۔ قرآن کے جلنے سے پہلے ‏‏توہین آمیز خاکوں‏‏ کی ایک لہر دوڑ گئی تھی اور اگر وقت کے ساتھ سفر کیا جائے تو وہاں مستشرقین کی جانب سے اسلام اور اس کی مقدس ہستیوں کو 'علم' کے نام پر بدنام کرنے کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔‏

‏ظاہر ہے کہ اسلامی عقیدے پر یہ حملے اظہار رائے کی آزادی سے وابستگی کی وجہ سے نہیں بلکہ نفرت کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ ان گھناؤنے واقعات میں ملوث بہت سے نفرت پھیلانے والوں کا تعلق اسی پرتشدد سفید فام قوم پرست نظریاتی اسپیکٹرم سے ہے جس نے ‏‏کرائسٹ چرچ‏‏، ‏‏اوسلو‏‏ اور ‏‏مونٹریال‏‏ میں مسلمانوں کا قتل عام کرنے والے قاتلوں کو جنم دیا تھا لہٰذا اسلامو فوبیا آزادی اظہار کے فکری تصورات کے بارے میں نہیں بلکہ مسلمانوں کے خلاف حقیقی دنیا میں ہونے والے تشدد کی حمایت اور وکالت کے بارے میں ہے۔ اور یہ صرف مغربی انتہا پسند ہی نہیں ہیں جو اسلاموفوبیا کو مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ بھارت میں ‏‏کئی دہائیوں سے مسلم مخالف تشدد ہو رہا ہے جس کی سرپرستی حکومت (ریاست) کر رہی ہے۔

اسلام کے خلاف ان روئیوں سے دنیا کی ایک تاریک تصویر اُبھر کر سامنے آ رہی ہے جبکہ اِس اندھیرے میں روشنی (امید) کی کرن میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا حالیہ اجلاس تھا جہاں مسلم دنیا کے رہنماؤں نے غیر معمولی اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلاموفوبیا کی مذمت کی اُور سب نے ایک مؤقف کا اظہار کیا۔‏

‏ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ نسل پرستی کا 'طاعون' مغرب کو متاثر کر رہا ہے جبکہ جمہوری اسلامی ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے تبصرہ کیا ہے کہ بے حرمتی کے واقعات 'انسانی وقار کے لائق نہیں' ہیں۔ پاکستان نے بھی عالمی فورمز پر اسلاموفوبیا کے خلاف ‏‏مسلسل آواز اٹھائی‏‏ ہے۔‏

‏الفاظ کے ذریعے مذمت کے علاؤہ، ان اشتعال انگیزیوں کو ختم کرنے کے لئے عملی اقدامات کی بھی اشد ضرورت ہے، خاص طور پر ان ممالک میں جہاں بار بار قابل مذمت بے حرمتی کے واقعات پیش آ رہے ہیں۔‏

‏ڈنمارک‏‏ اور ‏‏سویڈن‏‏ دونوں مبینہ طور پر سیکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر مذہبی کتابوں کی بے حرمتی پر پابندی عائد کرنے پر غور ہو رہا ہے لیکن یہ غور بہت ہی سست رفتار ہے۔ ان مجوزہ اقدامات کو اگر عملی شکل دی جاتی ہے تو اس سے تصادم کے ایک خطرے کو روکنے میں مدد ملے گی۔

‏جس طرح یورپ نے یہود دشمنی کے خلاف مستقل موقف اختیار کیا ہے بالکل اسی طرح کا مؤقف اسلام کے بارے میں اختیار کرنے کی ضرورت ہے کہ گزشتہ چھ دہائیوں سے یورپی سرزمین پر لاکھوں یہودیوں کے قتل عام کے بارے میں کچھ بھی کہنے پر پابندی ہے اس طرح کا طرزعمل مغربی ریاستوں کو اسلاموفوبیا کے خلاف اپنانا ہوگا۔ جس طرح بہت سے مغربی ممالک میں ہولوکاسٹ پر سوال اٹھانا جرم ہے، اسی طرح اسلام یا دیگر مذاہب کو نشانہ بنانے والی نفرت انگیز کاروائیوں کو بھی غیر قانونی قرار دیا جانا چاہیئے۔‏

‏باہمی احترام اور رواداری پر مبنی معاشروں کی تشکیل کے لئے عالمی سطح پر کوششوں کی ضرورت ہے۔ تہذیبوں کے درمیان ایک نئے عالمی معاہدے کی بھی ضرورت ہے۔ کرہ ارض ایک گھر کی صورت ہے۔ جس میں مختلف ممالک درحقیقت ایک دوسرے کے لئے باعث تقویت و سہارا ہیں۔ اگر دنیا کے بڑے مذاہب میں سے ایک یعنی اسلام کی مقدس ترین علامتوں پر مسلسل حملے اور اسلام کے مقدسات کی بے حرمتی کی جاتی رہی تو اس سے دنیا میں امن و رواداری اُور معاشروں کے درمیان احترام و محبت کی بنیاد پر تعلقات قائم نہیں کئے جا سکیں گے۔